کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 68
الرستاق بامر الامام فھو امر بالجعۃ اتفاقا علی ماقالہ السرخسی والرستاق القری کما فی القاموس انتھی اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسجد قبا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے بنی ہے،بلکہ صحیح بخاری مؤلف کے حساب سے اس واسطے کہا گیا ہے۔ کہ مؤلف نے(ص۱۱)میں ہزم النبیت اور مدینہ کے درمیان ایک کوس کا فاصلہ بتایا ہے۔ اور اسی قدر فاصلہ مدینہ اور موضع بنی سالم کے درمیان بھی ہے۔ کما صرح بہ النووی
سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسجد قبا کی بنیاد ڈالی ۔ پس مسجد قبا میں بلاشبہ عند الحنفیہ نمازِ جمعہ پڑھنا جائز تھا۔ اب حضرت شوق خود ہی فرمائیں کہ باوجود یکہ نمازِ جمعہ مکہ میں فرض ہو چکی تھی۔ اور مسجد قبا میں عند الحنفیہ نمازِ جمعہ جائز تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ جمعہ کیوں ترک کی؟ اگر آپ مسافر تھے تو قبا والوں کو کیوں اذن نہ فرمائی؟ فما ھو جوابکم فھم جوابنا۔
چوتھا جواب
مقام قبیلہ بنی عمرو بن عوف جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نزولِ اجلال فرمایا تھا اورمسجدِ قبا کی بنیاد ڈالی تھی، عند الحنفیہ تو ابع مدینہ وفنائے مدینہ سے ہے۔ اور ہر اس مقام میں توابع مصر وفنائے مصر سے ہو اس میں عند الحنفیہ نمازِ جمعہ جائز ودرست ہے۔ اور اس مقام کے لوگوں پر نمازِ جمعہ واجب۔ پس مقام بنی عمرو بن عوف میں عند الحنفیہ نمازِ جمعہ جائز ہے۔ اور یہاں کے لوگوں پر نمازِ جمعہ واجب۔ صغریٰ کا ثبوت یہ ہے۔ کہ مقام بنی عمرو بن عوف مدینہ سے دو میل کے فاصلہ پر ہے۔ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح صحیح مسلم میں لکھا ہے :قال العلماء منا زل بنی عمرو ببن عوف علی میلین من المدینہ انتھٰی۔اور جو مقام کہ مصر سے دومیل کے فاصلہ پر ہو وہ عند الحنفیہ تو ابع مصر وفنائے مصر سے ہے۔ درالمختار میں ہے۔
والمختار للفتویٰ تقدیرہ بفرسخ ذکرہ الولواجی۔
’’فتویٰ کے واسطے مختاریہ ہے کہ فنائے مصر کا اندازہ ایک فرسخ یعنی تین میل مقرر کیا جائے۔‘‘
دیکھو فنائے مصر کی تقدیر جو مختار للفتویٰ بتائی گئی ہے۔ وہ تین میل ہے اور مقام بنی عمرو بن عوف تو مدینہ سے صرف دو میل کے فاصلہ پر ہے۔ پس اس مقام کا فناء ِ مدینہ سے ہونا نہایت ظاہر ہے۔ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے مرقاۃ میں ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ سے