کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 67
جمعۃ صلاھا بالمدینۃ المختصر مؤلف کی یہ تردید کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی نمازِ جمعہ یا تو مدینہ میں ہوئی یا بنی سالم کی مسجدِعاتکہ میں محض غلط ہے اور اس غلطی کی وجہ وہی فتح الباری کی عبارت کا مطلب نہ سمجھنا ہے۔ تنبیہ آخر مؤلف نے لکھا ہے کہ’’موضع بنی سالم مدینہ کا ایک محلہ ہے جو شہر سے باہر ہے۔‘‘ میں کہتا ہوں کہ یہ بھی محض غلط ہے ۔موضع بنی سالم مدینہ کا محلہ نہیں ہے، بلکہ وہ ایک دیہات ہے۔ جو مدینہ اور قبا کے درمیان واقع ہے۔ اور مؤلف[1] کے حساب سے مدینہ سے ایک کوس کے فاصلہ پر واقع ہے۔ بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے معرفۃ السنن میں لکھا ہے۔ ھی قریۃ بین قبا والمدینہ ناظرین !آپ جانتے ہیں کہ کیوں جناب مؤلف نے بنی سالم کو مدینہ کا محلہ بنایا ہے۔ بات یہ ہے کہ اگر جناب شوق یہاں صحیح صحیح لکھ دیتے۔ اور ظاہر کر دیتے ۔ کہ موضع بنی سالم قبا اور مدینہ کے درمیان ایک دیہات ہے جو مدینہ سے ایک کوس کے فاصلہ پر واقع ہے۔ تو اسی پہلی دلیل سے دیہات میں جمعہ کا جائز ودرست ہونا ثابت ہو جاتا ۔ اور آپ کی پہلی دلیل بالکل درہم برہم ہو جاتی۔ پس مؤلف کے صحیح اور سچی بات کے ظاہر نہ کرنے میں یہی بھیدہے۔ ؎ راز معشوق نہ افشاہو جائے ورنہ مرجانے میں کچھ بھید نہ تھا تیسرا جواب باتفاق فقہائِ حنفیہ یہ مسلم ہے کہ جب امام کے حکم سے دیہات میں کوئی مسجد بنائی جائے۔ تو اس مسجد میں نمازِ جمعہ پڑھنا جائز ہے اور بحکم امام اس مسجد کا بننا اس میں اقامتِ جمعہ کا حکم دینا ہے۔ ردالمختار میں ہے۔ اذا بنی مسجد فی
[1] مؤلف کے حساب سے اس واسطے کہا گیا ہے۔ کہ مؤلف نے(ص۱۱)میں ہزم النبیت اور مدینہ کے درمیان ایک کوس کا فاصلہ بتایا ہے۔ اور اسی قدر فاصلہ مدینہ اور موضع بنی سالم کے درمیان بھی ہے۔ کما صرح بہ النووی