کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 65
دوسرا جواب
اس پہلی دلیل کا مدار کئی باتوں پر ہے۔ ازاںجملہ ایک اس بات پر ہے۔ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے موضع قبا میں نمازِ جمعہ ادا نہیں فرمائی۔ اور اس کا ثبوت صرف اس روایت سے ہوتاہے [1] کہ آپ کی پہلی نمازِ جمعہ بنی سالم کی مسجدِ عاتکہ میں ہوئی۔ مگر یہ روایت مؤلف کے نزدیک ضعیف ہے۔ چنانچہ آپ جامع الاثار کے (ص۱۰)میں اس روایت کو نقل کر کے لکھتے ہیں کہ’’یہ روایت ضعیف ہے ۔کیونکہ ایک روایت میں ہے کہ بروز دو شنبہ آپ مکہ سے قبا میں پہنچے ہیں۔ اور بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ وہاں چودہ شب قیام کیا ۔پس کسی طرح چودھواں روز جمعہ نہیں ہوتا۔ جب یہ روایت عند المؤلف ضعیف ہے اور اسی روایت ضعیفہ پر اس پہلی دلیل کی بنیاد ہے پس اس دلیل کے ضعیف اور واہی ہونے میں کیا شبہ ہے۔
تنبیہ
مؤلف نے لکھا کہ’’آپ کی پہلی نمازِ جمعہ یا تو مدینہ میں ہوئی یا بنی سالم کی مسجدِ عاتکہ میں۔‘‘ میں کہتا ہوں کہ یہ تردیدمحض غلط ہے ۔کسی نے یہ نہیں لکھا ہے کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی نمازِ جمعہ مدینہ میں ہوئی۔ تمام اہلِ سیر بالاتفاق یہی لکھتے ہیں۔ کہ پہلی نمازِ جمعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موضع بنی سالم کی مسجدِ عاتکہ میں ہوئی۔ اور حاشیہ پر فتح الباری کی جو یہ عبارت ولذلک جمع بھم اول ما قدم المدینۃ کما حکاہ ابن اسحق وغیرہ نقل کی ہے۔ اس عبارت کا مطلب آپ کی سمجھ میں نہیں آیا۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس عبارت میں ابن اسحق وغیرہ کی حکایت کاحوالہ دیا ہے۔ اگر جناب مؤلف ابن اسحق رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کی حکایت دیکھ لیے ہوتے تو ایسی فاش غلطی میں نہ پڑتے۔ یہاں ہم ابن اسحق رحمہ اللہ
[1] کیونکہ کسی روایت میں یہ نہیں آتا ہے کہ آپ ا نے موضع قبا میں نمازِ جمعہ ادا نہیں فرمائی ۔ صرف اسی روایت سے مفہوم ہوتا ہے ،آپ ا نے قبامیں نمازِ جمعہ نہیں ادا کی(حضرت مؤلفؒ)