کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 64
جمعہ قبل ہجرتِ مکہ ہی میں فرض ہو چکی ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اہلِ مدینہ کو یہ لکھنا کہ اذا مال النھار عن شطرہ عند الزوال من یوم الجمعۃ فتقربوا الی اللہ برکعتین بھی آپ کے نزدیک مسلم ہے۔ پھر آپ اہلِ قبا کا جمعہ ترک کرنا کیسے ثابت کر سکتے ہیں۔ اور آپ نے جو یہ فرمایا: کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسافر تھے۔ تو قبا والوں کو اذن نہ فرمایا۔ ثانیاً جب نمازِ جمعہ مکہ ہی میں فرض ہو چکی تھی۔ اور اہلِ مدینہ کو مکہ ہی سے اقامتِ جمعہ کے لیے لکھ بھیجا تھا، تو پھر قبا میں آکر دوبارہ اذن دینے کی ضرورت کیا تھی۔ تنبیہ مؤلف نے جامع الاثار کے (ص۲،حاشیہ ص ۳) میں لکھا ہے کہ حضرتِ غیر مقلدین کے نزدیک مسافر پر جمعہ فرض ہے۔ میں کہتا ہوں کہ مؤلف کا یہ لکھنا صحیح نہیں ہے۔ اہلِ حدیث کے نزدیک بھی مسافر پر جمعہ فرض نہیں ہے ۔ کتب ورسائل اہلِ حدیث میں اس کی تصریح موجود ہے۔ چنانچہ مولانا شمس الحق صاحب التحقیقات العلیٰ میں فرماتے ہیں۔’’اور ایسا ہی مسافر پر بھی فرض نہیں۔ جیسا کہ ترمذی اور احمد نے مقسم عن ابن عباس سے مرفوعاً رایت کیا ہے۔ انتہیٰ اور جناب نواب صدیق الحسن خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ بدور الاہلہ (ص۱۷طبع بھوپال)میں فرماتے ہیں۔ وایجابش بر مسافر یکہ نازل بجائے اقامتِ جمعہ باشد یا سامع ندائے اوست تخصیص بلا مخصص است آرے اگرا نیہا نمازِ جمعہ بجا آرند نماز ایشاں مجزی باشد۔ زیر ا کہ دراصول متقر رشدہ کہ الرخصۃ ما خیر المکلف بین فعلہ وترکہ مع بقاء سبب الوجوب والتحریم انتھی اور علامہ قاضی شوکانی رحمۃ اللہ علیہ الدررالبیہہ میں فرماتے ہیں ۔ صلوۃ الجمعۃ تجب علی کل مکلف الاالمرأۃ والعبد والمسافر والمریض انتھی اسی طرح اور کتب اہلِ حدیث میں مرقو م ہے۔