کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 63
پہلا باب
مؤلف کی ادلہ ثمانیہ وآثار صحابہ وتابعین کے جواب میں
قال المؤلف ’’احادیث وتفاسیر وکتب سیر سے ثابت ہے کہ آیتِ جمعہ اگرچہ مدینہ میں نازل ہوئی ہے۔ مگر نمازِجمعہ بذریعہ وحی قبل ہجرتِ مکہ ہی میں فرض ہو چکی تھی۔ چونکہ وہاں کفار کا غلبہ تھا، آپ خود وہاں اقامتِ جمعہ سے مجبور تھے۔ مدینہ طیبہ میں چونکہ ہر طرف امن تھا، آپ وہاں اس کی اقامت کے لیے کہلا بھیجا۔وہاں نمازِجمعہ ہوتی رہی۔ جب آپ نے مکہ معظمہ سے ہجرت فرمائی تو موضع قبا میں جو مدینہ طیبہ سے تین کوس کے فاصلہ پر ہے دو شنبہ کے روز پہنچے اور قبیلہ بنی عوف کے یہاں نزول اجلال فرمایا۔ وہاں مسجد کی بنا ڈالی گئی۔ عامہ مسلمین کی جماعت کے ساتھ علانیہ نماز ادا ہونے لگی۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ وہاں چودہ شب قبا میں رہے ۔ اس سے یہ نکلتا ہے کہ دو ایک جمعہ قبا میں ضرور پڑھا ،مگر کسی روایت سے یہ ثابت نہیں کہ وہاں آپ نے نمازِ جمعہ ادافرمائی،بلکہ آپ کی پہلی نمازِ جمعہ یا تو مدینہ میں ہوئی یا بنی سالم کی مسجد عاتکہ میں ،جو مدینہ کا ایک محلہ ہے، جو شہر سے باہر ہے۔ اب یہ امر قابل غور ہے کہ باوجودیکہ نمازِ جمعہ فرض ہو چکی تھی۔ قبا میں آپ نے نمازِ جمعہ کیوں ترک کی۔ اگر آپ مسافر تھے، تو قبا والوں کو کیوں اذن فرمایا۔پس ترک کرنے سے صاف نکلتا ہے کہ قبا میں نماز ِ جمعہ درست ہی نہیں تھی۔ انتہی ملخصاً
اقول:اس دلیل کے پانچ جواب ہیں۔
پہلا جواب
ہم نے مانا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبا میں نمازِ جمعہ ترک کی۔ مگر اس سے قبا میں نمازِ جمعہ کا نادرست ہونا لازم نہیں آتا۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قبا میں مسافر تھے۔ اور مسافر پر جمعہ فرض نہیں۔ ہاں اگر آپ اہلِ قبا کا جمعہ ترک کرنا ثابت کر دیں تو البتہ قبا میں نمازِ جمعہ کا نا درست ہونا لازم آئے۔ مگر اس کا ثبوت آپ سے ناممکن ہے۔ کیونکہ آپ کے نزدیک نمازِ