کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 62
الحاصل احناف کا یہ دعویٰ کہ’’دیہات میں نمازِ جمعہ ناجائز وگناہ ہے‘‘ نہایت ضعیف اور بالکل بے اصل ہے ۔ اور ان کے منجملہ مسالکِ ضعیفہ کے ایک یہ بھی ہے ۔اسی وجہ سے شافعیہ ، مالکیہ، حنبلیہ سے کسی نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ اور کسی نے صحتِ جمعہ کے واسطے مصر کا ہونا، ضروری نہیں بتایا اور اسی وجہ سے جناب شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس مسئلہ میں احناف کی رفاقت نہیں کی۔ آپ مصفیٰ شرح مؤطا میں فرماتے ہیں۔’’پس نمازِ جمعہ دورکعت است دروقت ظہر با جماعت عظیمہ از مسلمین درقریہ یادر شہر‘‘ نیز فرماتے ہیں۔’’ پس بر جمعیکہ بر اجتماع ایشاں اسم قریہ تو اں اطلاق نمود جمعہ واجب است۔‘‘
ان دونوں اسی بے اصل وضعیف مسلک کے قول ومدلل بنانے کی عرض سے مولوی ظہیر احسن شوق نے ایک رسالہ لکھا ہے اور جامع الاثار اس کا نام رکھا ہے۔ اپنی عرض میں کامیاب ہونے کے لیے حضرت شوق نے بہت کچھ زور مارا ہے۔ چنانچہ آپ نے علاوہ اثر علی رضی الله عنہ کے سات دلیلیں اور لکھی ہیں اور ان ادلہ میں سے ایک بھی دعویٰ مذکورہ کے مطابق نہیں ہے۔ان میں بعض تو ایسی ہیں کہ ان کو دعویٰ مذکورہ سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ اور اکثر ایسی ہیں کہ ان کو دعویٰ مذکورہ کا بطلان وفساد ثابت ہوتا ہے۔ آج ہم حسب اشارہ جناب مولانا ابو الطیب[1] شمس الحق صاحب محدث عظیم آبادی حقق اللہ اما نیہ وارغم انف شانیہ اسی جامع الاثار کی تردید میں اپنا رسالہ نور الابصار تصنیف کر کے اہلِ اسلام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ اورناظرین سے نظروغور وانصاف کے امیدوار ہیں۔ وما توفیقی الا باللہ وھو حسبی ونعم الوکیل۔
واضح ہو کہ ہم نے اپنا رسالہ نور الابصار کو دو باب پر منقسم کیا ہے ۔
پہلاباب مؤلف (مولوی ظہیر احسن صاحب )کے ادلہ ثمانیہ وآثار صحابہ رضی الله عنہم وتابعین رحمۃ اللہ علیہ کے جواب میں اور دوسرا باب بقیہ مباحث کے جواب میں۔
[1] آپ نے بھی مسلکِ حنفیہ کے خلاف میں ایک رسالہ قابلِ دید تصنیف فرمایا ہے۔ جس کا نام التحقیقاتِ العلیٰ ہے۔ اس رسالہ میں آپ نے نہایت عمدہ طور پر ثابت کیا ہے کہ نمازِ جمعہ اہل مصر واہل قریٰ وغیرہم پر یکساں فرض ہے۔ اور احناف کے شرط مصروسلطان وغیرہ کو نہایت خوبی سے توڑا ہے۔(مؤلف)