کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 61
اگراحناف قول علی رضی الله عنہ پر اڑ ے تھے اچھی طرح اڑتے۔ اور شہر چھوڑ، ہر دیہات میں چھوٹا ہو خواہ بڑا، نمازِ جمعہ ناجائز بتاتے تو بھی خیر ایک بات تھی۔ مگر حیرت تو یہ ہے کہ ان حضرات نے مصر کی بہت سی تعریفیں گھڑیں۔ جن کو نہ لغت سے کچھ تعلق ہے اور نہ قرآن وسنت سے کچھ لگاؤ۔ کسی نے مصر کے معنے کا دائرہ اس قدر وسیع کیا کہ بہت سے دیہات کو بھی حد مصر کے اندر لے لیا اور ان میں نمازِ جمعہ کو واجب بتایا اور کسی نے اتنا تنگ کیا کہ بہت سے شہروں کو بھی حد مصر سے خارج کر کے ان میں نمازِ جمعہ کو ناجائز ٹھہرایا۔ لیجئے قول علی رضی الله عنہ پر بھی پورا عمل نہ ہوا۔ پھر طرہ یہ کہ ان تعریفوں میں باہم ایسا اختلاف کہ الامان ۔ دنیا بھر میں بہت ہی تھوڑے ایسے شہر نکلیں گے ،جن میں مصر کی کل مختلف تعریفیں صادق آئیں۔ اور جن میں باتفاق فقہاء نمازِ جمعہ بلا شک و شبہ جائز ہو ایسے ہی اکثر شہر نکلیں گے جن کا مصر ہونا اور ان میں نمازِ جمعہ کا ہونا مشکوک ومشتبہ ہے ۔ حتیٰ کہ عند الاحناف مکہ اور مدینہ (جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بھر نمازِ جمعہ پڑھی ہے) کے مصر ہونے اور ان دونوں متبرک مقاموں میں بھی نمازِ جمعہ کے جائز ہونے میں شک اور تردد ہے۔ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ واختلفوا فی حد المصر اختلاف کثیر اقل ما یتفق وقوعہ فی بلد ولا تغتر بقول من قال ان کلامن الحرمین الشریفین مصر لصلٰوتہ علیہ الصلوۃ والسلام فیھما لان الا وصاف تختلف باختلاف الا وقات الخ ۔ پھر طرہ پر طرہ یہ ہے کہ اسی شک و شبہ کی وجہ سے فقہائے متاخرین نے ایک نماز ایجاد کی۔ اور ظہر احتیاطی نام رکھااور اس نماز محدث کا ان مقامات میں پڑھنا واجب بتایا۔ جو بعض حدود کے رو سے مصر ہیں اور بعض کے اعتبار سے نہیں۔ تا اگر نمازِ جمعہ صحیح نہ ہوئی تو یہ احتیاطی ظہر کا کام دے گی واِلاَّ نفل ہو جائے گے۔ اس بدعت ومحدث فی الدین پر اگر چہ خود بعض فقہاء نے سخت انکار کیا ہے۔ تاہم بہت مقاموں میں اس بدعت پر عمل کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ {فاعتبروا یا اولی الابصار}