کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 60
وعثمان بامرھما وفیھا رجال من الصھابۃ انتھی [1]المختصر آیہ جمعہ واحادیث وآثار مذکورہ بالا سے ثابت ہے کہ نمازِ جمعہ جماعت کے ساتھ ہر مسلمان عاقل بالغ پر فرض ہے۔ اور بجز اشخاص مذکورین کے کوئی مستثنی نہیں ہے۔ اور ہرمقام میں (شہر ہو خواہ دیہات خواہ میدان) نمازِ جمعہ ادا کرنا صحیح اور جائز ہے۔ مگر حضراتِ احناف کا یہ دعویٰ ہے کہ دیہات میں نمازِ جمعہ ناجائز ونادرست ہے اس دعویٰ کے اثبات میں حضرت علی رضی الله عنہم کا یہ قول پیش کرتے ہیں۔ لا تشریق ولا جمعۃ الا فی مصر جامع یعنی ’’حضرت علی رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ تشریق وجمعہ نہیں، مگر مصر جامع میں۔ دعویٰ مذکورہ کے اثبات میں حضراتِ احناف کے پاس بجزاثر علی رضی الله عنہ رضی الله عنہ کے نہ کوئی آیت ہے اور نہ کوئی حدیث۔ اور ہم آگے چل کر ایک نہیں، متعددوجہوں سے ثابت کردیں گے کہ اثر علی رضی الله عنہ سے دعویٰ مذکورہ کسی طرح ثابت نہیں ہوتا۔ لیکن احناف ظاہر اثر علی رضی الله عنہ پر اڑ بیٹھے اور غور وخوض سے ذرا بھی کام نہیں لیا۔ جس کا انجام یہ ہوا کہ ادھر آیہ جمعہ واحادیث مذکورہ پر عمل ترک ہوا اور ادھر جناب امامِ اعظم کے اس اصل کو چھوڑنا پڑا جو آبِ زر سے لکھنے کے قابل بتایا گیا ہے۔ اور اسی قول علی رضی الله عنہ سے قرآنِ پاک اور احادیث کی تخصیص کی۔ اور صحت جمعہ کے لیے مصر کا ہونا ضروری بتایا۔ اور دیہات میں اقامتِ جمعہ پر اصرار کرنے کو گناہ کبیرہ ہونے کا فتویٰ دیا۔ اللہ اللہ قرآنِ مجید میں ہر مکلف شہری ہو خواہ دیہاتی نمازِ جمعہ ادا کرنے کو کلمہ {فاسعوا } سے مامور کیا جائے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صاف اورصریح لفظوں میں یہ فرمائیں کہ الجمعۃ حق واجب علی کل مسلم الحدیث اور صحابہ رضی الله عنہ دیہات میں نمازِ جمعہ پڑھیں اور پڑھنے کا حکم کریں۔ اور ادھر اُدھر سرگرمی کے ساتھ حضراتِ احناف کی یہ منادی کہ دیہات میں جمعہ نادرست اور گناہ ہے۔{ کبرت کلمۃ تخرج من افواھم}
[1] ان آثار پر مؤلف نے جو کچھ مہمل کلام کیا ہے۔ اس کا دندان شکن جواب دوسرے باب میں آتا ہے۔