کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 59
جمعہ وعید کے لیے شہر بصرہ میں آتے تھے۔ صحیح بخاری میں ہے۔
کان انس ؓ فی قصرہ احیانا یجمع واحیانا لا یجمع وھو بالزاویۃ علی فرسخین۔
نیز اسی میں ہے۔
امر انس بن مالک مو لاہ ابن ابی عتبۃ بالزاویۃ فیجتمع اھلہ وبنیہ وصلی کصلوۃ اھل المصر وتکبیر ھم انتھی
حضرت عمر رضی الله عنه نے اہلِ سجرین کو لکھا کہ جمعواحیثما کنتم یعنی تم لوگ جس مقام میں رہو نمازِ جمعہ پڑھو۔ حضرت عمر رضی الله عنه کا یہ قول شہر ودیہات دونوںکو شامل ہے۔ فتح الباری میں ہے۔ ھذا یشمل المدن والقری حضرت ابن عمر رضی الله عنہ مکہ اور مدینہ کے درمیان اہل میاہ کو اپنی اپنی بستیوں میں نمازِ جمعہ پڑھتے دیکھتے تھے۔ اور ان پر کچھ انکار نہیں فرماتے تھے۔ فتح الباری میں ہے وعند عد الرزاق باسناد صحیح عن ابن عمر انہ کان یری اھل المیاہ بین مکۃ والمدینۃ یجمعون فلا یعیب علیھم(ص ۱۷۰ج۳، یہ کتاب اب طبع ہو چکی ہے۔ )صحابہ رضی الله عنہم کے بعد تابعین واتباع تابعین وغیرہم بھی دیہات میں جمعہ پڑھتے رہے اور اس کا فتویٰ دیتے رہے۔ ولید بن مسلم نے امام لیث بن سعد رحمۃ اللہ علیہ سے نمازِ جمعہ کے بارے میں سوال کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ہر شہر ودیہات میں جس میں مسلمانوں کی جماعت ہو تو نمازِ جمعہ پڑھنا چاہیے۔ اس واسطے کہ مصر اور سواحل مصر کے لوگ حضرت عمر رضی الله عنہ وحضرت عثمان رضی الله عنہ کے زمانہ میں ان دونوں خلیفوں کے حکم سے نمازِ جمعہ پڑھا کرتے تھے۔ اور مصر وسواحل مصر میں متعدد صحابہ رضی الله عنہم موجود تھے۔ فتح الباری میں ہے۔ وروی البیھقی من طریق الولیدبن مسلم سألت اللیث بن سعد فقال کل مدینۃ او قریۃ فیھا جماعۃ المسلمین امرو بالجمعۃ فان اھل المصر وسواحلھا کانوا یجمعون علی عھد عمر