کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 320
مرا تھا۔ اور لوگوں کو لے کر مصلے کی طرف نکلے ، اور لوگوں نے آپ کے پیچھے صف باندھی اور آپ نے نمازِ جنازہ پڑھی، اور چار تکبیر کہیں ۔اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ میت غائب پر نمازِ جنازہ پڑھنا جائز ہے، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ (قالہ الحافظ فی الفتح :ص۲۸۲ج۱) اورامام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا اور اکثر سلف رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مذہب ہے، اور حنیفہ اور مالکیہ کے نزدیک میت غاء پر جنازہ کی نماز پڑھنا جائز نہیں۔ فائدہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس مسلمان میت کے جنازہ پر چالیس آدمی کھڑے ہو جو کسی چیز کو اللہ تعالیٰ کا شریک نہ ٹھہراتے ہوں یعنی مشرک نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ اس میت کے بارے میں ان لوگوں کی شفاعت قبول کرے گا۔ روایت کیا اس کو مسلم نے، اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس میت پر مسلمانوں کی ایک اتنی بڑی جماعت جنازہ کی نماز پڑھے، جن کی تعداد ایک سو ہو اور و سب اس کے لیے شفاعت کریں تو ان کی شفاعت قبول کی جائے گی۔روایت کیا اس کو مسلم نے۔ ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ نمازِ جنازہ میں مسلمانوںں کا کثرت سے شریک ہونا میت کے حق میں قبولیت دعا کا باعث ہے، پس خوش نصیب ہیں وہ مردے جن کے جنازہ کی نماز میں چالیس موحد مسلمان شریک ہوں اور خلوص دل سے ان کے لیے دعا کریں اور اس سے اور زیادہ شریک ہوں تو اور بڑی خوش نصیبی ہے۔ فائدہ: اکثر فقہائِ حنیفہ کا قول یہ ہے کہ ’’نماز جنازہ میں سورۂ فاتحہ پڑھنا مکروہ ہے ہاں سورۂ فاتحہ کو اگر دعا کی نیت سے پڑھے تو مضائقہ نہیں۔ سو واضح ہو کہ فقہائِ حنفیہ کا یہ قول صحیح نہیں ہے، خود علمائِ حنفیہ نے اس قول کی تردیدی کر دی ہے۔ علامہ شربنلالی حنفی نے فقہائِ حنفیہ کے اس قول کی تردید میں ایک مستقل کتاب لکھی ہے جس کا نام رکھا ہے۔ انظم المستطاب لحکم القراء ۃ فی صلوٰۃ الجنازۃ بام الکتاب علامہ ممدوح نے اس کتاب میں فقہائِ حنفیہ کے اس قول کی خوب اچھی طرح پر تردیدی کی ہے اور نہایت شافعی دلیلوں سے ثابت کیا ہے کہ نمازِ جنازہ میں سورۂ فاتحہ کا پڑھنا اولیٰ ہے۔ اور کراہت کی کوئی دلیل نہیں ہے، اور مولوی عبد الحی صاحب حنفی لکھنوی نے بھی اپنی تصنیفات میں