کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 319
لوگوں نے پسند نہیں کیا۔ پس آپ اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور قبر پر جنازہ کی نماز پڑھی اور ایک روایت میں ہے کہ ابن عباس نے کہا کہ ہم لوگوں نے آپ کے پیچھے صف باندھی، پھر آپ نے نمازِ جنازہ پڑھی۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جس میت پر نماز جنازہ پڑھی گئی ہے، اس کی قبر پر بھی نمازِ جنازہ پڑھنا جائز ہے، پس اگر کسی کو نمازِجنازہ نہیں ملی، اور بعد دفن کے پہنچا ، تو قبر پر نمازِ جنازہ پڑھ سکتا ہے، اکثر اہلِ علم کی یہی مذہب ہے[1]اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جس میت پر نمازِ جنازہ پڑھی گئی ہے اس کی قبر پر نمازِ جنازہ پڑھنا جائز نہیں۔
فائدہ: بخاری اور مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے مرنے کی خبر اسی روز لوگوں کو دی جس روز
[1] قال ابن المنذر قال بمشر وعیتہ الجمھور منعہ النخعی ومالک وابو حنیفۃ عنھم ان دفن قبل ان یصلی علیہ شرع والا فلا کذافی فتح الباری(ص۶۹ج۱) وقال ابن الھمام فی فتح القدیر وما فی الحدیث من الصف وفی الصحیحین عن الشعبی قال الشیبانی من حدتک ھذا قال ابن عباس دلیل علی ان لمن لم یصل ان یصلیی علی القبر وان لم یکن الو لی وھو خلاف مد ھبنا ولا مخلص الا بادعاء انہ لم یکن صلی علیھا وھو فی غایۃ من البعد من الصحابۃ انتھٰی قال فی سبل السلام (ص۱۲۹ ج۲) واما القول بان الصلوٰۃ علی القبر من خصائصہ صلی اللہ علیہ وسلم فلا یتھض لا ن دعوی الخصوصیۃ خلاف الا صلی انتھی۔ فان قلت فی اصحیحین فی فضۃ المرأۃ التی کانت تقم المسجد دلونی علیٰ قبرھا فذکرہ فصلی علیھا وزاد مسلم ثم قال ان ھذہ القبر مملوء ۃ ظلمۃ علیٰ اھلھا وان اللہ ینورھا بصلوٰتی علیھم فھذہ الزیادۃ تدل علی ان ذلک من خصائصہ قلت قال الشوکانی فی النیل اجاب الجمھور عن ھذہا لزیادۃ بانھا مدرجۃ ومجرد کون اللہ ینورالقبرو بصلوتہ صلی اللہ علیہ وسلم علی اھلھا لا ینفی مشروعیۃ الصلوٰۃ علی القبر لغیرہ۔انتھٰی انیل(ص۵۶ج۴)