کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 318
۔ یعنی جو امام کے ساتھ پاؤاس کو پڑجھ لو، اور جو فوت ہو اس کو پوری کر لو، سو آپ کا یہ حکم نمازِ جنازہ کو بھی شامل ہے۔ مؤطا (ص۷۹) امام مالک رحمۃ اللہ علیہ میں ہے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے زہری سے پوچھا کہ کوئی شخص نمازِجنازہ کی بعض تکبیروں کو پائے اور بعض تکیریں فوت ہو جائیں تو کیا کرےانھوں نے فرمایا کہ جو تکبیر فوت ہو جائے اس کو قضا کرلے۔ فائدہ : جس میت پر جنازہ کی نماز نہیں پڑھی گئی اور یوں ہی بلا نمازِ جنازہ کے دفن کر دیا تھا تو اس کی قبر پر جنازہ کی نماز پڑھنا جائز ودرست ہے اور اس کے لیے کسی خاص مدت کی تحدید وتعیین ثابت نہیں ہے[1] اورحنفی مذہب کی کتابوں میں جو یہ لکھا ہے کہ قبر پر جنازہ کی نماز اسی وقت تک جائز ہے، جس تک لاش کے پھٹ جانے کا گمان نہ ہو سو اس کا حدیث سے کچھ ثبوت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض قبروں پر دفن سے ایک ماہ گزرنے کے بعد نماز جنازہ پڑھی ہے۔[2] فائدہ: صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک شخص رات کو مر گیا تو لوگوں نے اس کو رات ہی کو دفن کر دیا، جب صبح ہوئی تو لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع دی، آپ نے فرمایا کہ مجھے اس کی خبر دینے سے تم لوگوں کو کس چیز نے روکا، لوگوں نے کہا رات تھ اور اندھیری اس وجہ سے آپ کو تکلیف دینا ہم
[1] قال فی سبل السلام (ص۱۲۹ ج۲) اختلف القائلرن بالصلوٰۃ علی القبر فی المدۃ التی شرعت فیھا الصلوٰۃ فقیل الی شھر بعد دفنہ وقیل الیٰ ان یبلی المیت لانہ اذا بلی لم یبق ما یصلی علیہ وقیل ابد الان المراد من الصلوٰۃ علیہ الدعاء و ھو جائز فی کل وقت قلت ھذا ھو الحق اذا لا دلیل علی التحدید بمدۃ انتھٰی [2] عن ابن عباس ؓ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی علیٰ قبر بعد شھر ۔رواہ الدارقطنی وعن سعید بن مسیب ان ام سعد ماتت والنبی صلی اللہ علیہ وسلم غائب فلما قدم صلیی علیھا وقد مضی لذلک شھر راواہ الترمذی وعن ابی قتادۃ انہ صلی اللہ علیہ وسلم صلیی علیی قبر البراء وفی روایۃ بعد شھر۔ کذافی المنتقی والنیل (ص۵۵مصر ۱۹۶۱ء)