کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 317
نہ پڑھیں۔(تاکہ لوگوں کو عبرت ہو) بلکہ اور لوگوں کو کہہ دیں کہ وہ پڑھ لیں، زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک شخص خیبر میں مر گیا، اور اس کے مرنے کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی گئی آپ نے فرمایا کہ اس پر جنازہ کی نماز تم لوگ پڑھ لو، پس آپ کے اس فمانے سے لوگوں کے چہرے متغیر ہو گئے جب آپ نے لوگوں کے چہرے کی یہ ھالت دیکھی تو فرمایا کہ اس شخص نے اللہ کی راہ میں چوری کی ہے یعنی مال غنیمت سے چوری کی ہے، روایت کیا [1] اس کو ابو داود، نسائی، ابن ماجہ نے ۔ جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنے کوتیر کے پھل سے تقل کر ڈالا،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جنازہ کی نماز نہیں پڑھی، روایتکیا اس کو مسلم نے ۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ فاسق بد کار مسلمان کے جنازہ کی نماز نہیں پڑھنا چاہیے،چنانچہ یہی مذہب حضر ت عمر بن عبد العزیز اور ادزاعی وغیرہم کا مگر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم کا یہ مذہب ہیے کہ فاسق کے جنازہ کی نما زپڑھنا چاہیے، اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کا یہ جواب دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بذاتہٖ نماز نہیں پڑھی تھی۔لوگوں کی وتنبیہ کے لیے لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم نے پڑھی تھی، اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ نسائی کی روایت میں آیا ہے کہ’’لیکن میں سو اس کے جنازہ کی نماز نہیں پڑھوں گا‘‘ اور فاسق کی نماز پڑھنے پر یہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے، صلو علیمن قال لا الہ الا اللہ۔ یعنی جو شخص لا الہ الا اللہ کہے اس پر جنازہ کی نماز پڑھو۔ (کذافی النیل:ص ۵۱ج۴)
فائدہ: جنازہ کی نماز پوری نہ ملے، تو مثل اور نمازوں کے جس قدر امام کے ساتھ ملے اس کو امام کے ساتھ پڑھ لے اور جس قدر فوت ہو گئی ہو اس کو امام کے سلام پھیرے کے بعد پوری کر لے،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ما ادرکتم فصلو وما فاتکم نائمعا
[1] اس حدیث پر ابوداود اور منذری کے سکوت کیا ہے، اور اس کے تمام راوی صحیح کے راوی ہیں۔ (کذانی نیل الاوطار:ص۵۰ج۴ مصری)