کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 316
عورتوں کے جنازے لڑکوں کے پیچھے قبلہ کی طرف ۔ موطا(۸۰)امام مالک رحمۃ اللہ علیہ میں ہے کہ
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مردوں اور عورتوں پر جنازہ کی نماز مدینہ میں پڑھے تھے، پس مردوں کو امام کے قریب کرتے اور عورتوں کو قبلہ کی طرف، ابو داود اور نسائی میں عمار مولیٰ حارث سے روایت ہے کہ ایک لڑکے اور ایک عورت کا جنازہ حاضر ہوا، تو لڑکا آئے کیا گیا لوگوں کے قریب اور عورت اس لڑکے کے پیچھے رکھی گئی، پس ان دونوں پر نماز پڑھی گئی اور لوگوں میں ابو سعید خدریؓاور ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ابو قتادہ رضی اللہ عنہ تھے، تو میں نے ان لوگوں سے اس کو پوچھاتو ان لوگوں نے فرمایا کہ یہ سنت ہے‘‘ اس باب میں اور بھی حدیثیں آئی ہیں۔
واضح ہو کہ مذہب حنفی میں بھی کئی جنازوں پر ایک نماز پڑھنا درست ہے، علامہ ابن الہمام فتح القدیر (ص ۲۸۶ج۱) میں لکھتے ہیں کہ معلوم کرو کہ ایک نماز جیسے ایک میت کے لیے ہوتی ہے، اسی طرح ایک نماز کئی میت کے لیے بھی ہوتی ہے، پس جب کئی جنازے جمع ہوں تو اگر چاہے ہر میت پر الگ الگ نماز پڑھے اور چاہے تو سبھوں پر ایک ہی نماز پڑھے، اور مردوں کے رکھنے میں اختیار ہے، چاہے ان کو طول میں ایک سطر کر کے رکھے، اور جوان میں افض ہو اس کے پاس کھڑا ہو اور چاہے ان کو قبلہ کی طر ایک کے پیچھے ایک کو رکھے۔ اور ان مردوں کیرکھنے کی ترتیب امام کے اعتبار سے وہی ہے۔ جو حالت زندگی میں امام کے پیچھے تھی ۔پس جو افضل ہو وہ امام کے قریب رکھا جائے۔اور جو مفضول ہو امام سے دور قبلہ کی طرف رکھا جائے۔پس جب مرد اور لڑکے کا جنازہ جمع ہو جائے تو مرد امام کی طرف اور لڑکا قبلہ کی طرف کیا جائے اور اگردونوں کے ساتھ خنثی ہو تو وہ لڑکے کے پیچھے رکھا جائے، پس امام کے قریب مردو کی صف باندھی جائے، پھر لڑکوں کی ، پھر خنثٰی کی، پھر عورتوں کی، پھر مراہقاتت کی اور اگر کل مرد ہی کا جنازہ ہو تو حسن نے ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کی ہے کہ جو ان میں افضل اور عمر میں بڑا ہو امام کے قریب رکھا جائے، انتہٰی کلام ابن الہمام مترجماً
فائدہ: فاسق اور بدکار مسلمان کے جنازہ کی نماز پڑھنا چاہیے ،مگر اہلِ علم مقتدألوگ