کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 315
ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پیچھے ایک جنازہ کی نماز پڑھی، پس انھوں نے سورۂ فاتحہ اور ایک اور سورہ جہر سے پڑھا یہاں تک کہ ہم کو سنایا پھر جب وہ فارغ ہوئے تو میں نے ان کا تھ پکڑا اور ان سے پوچھا تو انھوں نے فرمایا کہ سنت ہے اورحق ہے اور ابنالجارور [1] کی منفقی میں زید بن طلحہ تیمی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک جنازہ پر سورۂ فاتحہ اور ایک اور سورہ پڑھا اور جہر سے قرأت کی اور فرمایا کہ میں نے بس اسی لیے جہر سے قرأت کی ہے کہ تم لوگوں کو بتادوںکہ یہ سنت ہے۔ اور ابو یعلیٰ رحمۃ اللہ علیہ[2] کی روایت میں سورۂ فاتحہ کے علاوہ ایک اور سورہ پڑھنے کاذکر ہے،پس ان روایتوں سے معلوم ہوا،کہ نمازِ جمازہ میں سورۂ فاتحہ کے علاوہ ایک اور سورہ بھی پڑھنا جائز ہے۔ فائدہ: جب کئی جنازے ایک ساتھ جمع ہوں تو ہر ایک کے لیے علیحدہ علیحدہ نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ سب کے لیے ایک ہی نماز پڑھنا کافی ہے، پس اگر مردوں اور عورتوں کے جنازے ایک ساتھ جمع ہوں تو مردوں کے جنازے کو امام کے قریب رکھیں، اور عورتوں کے جنازے کے اسن کے پیچھے قبلہ کی طرف رکھیں۔ اور اگر لڑکوں اور عورتوں کے جنازہ جمع ہوں تو لڑکو کے جنازے امام کے قریب اور عورتوں کے جنازے ان کے پیچھے قبلہ کی طرف ، اور اگر مردوں اور لڑکوں اور عورتوں کے جنازے ایک ساتھ جمع ہوں، تو مردوں کے جنازے امام کے قریب ور لڑکوں کے جنازے سے ان کے پیچھے قبلہ کی طرف اور
[1] اخرج ابن الجارفی المنتقی من طریق زید بن طلحۃ التیمی قال سمعت ابن عباس قرأعلی جنازۃ فاتحۃ الکتاب وسروۃ وجھر بالقراء ۃ وقال انما جھرف لا علمکم انھا سنۃ واخرجہ ایضاً من طریق طلحۃ بن عبد اللہ قال صلیت خلف ابن عباس علی جنازۃ فقرأببفاتححۃ الکتاب وسورۃ فجھر حتی سمعنا الحدیث کذافی عون المعبود۔(ص۱۹۱ج۳) [2] قال الحافظ ابن جرفی التلخیص(ص۱۱۹ج۲) فی ورواہ ابو یعلیٰ فی مسند ہ من حدیث ابن عباس وزادو سورۃ قال البیھقی ذکر السورۃ غیر محفوظ انتھٰی۔