کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 308
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نماز میں سنت یہ ہے کہ اللہ اکبر کہے پھر سورۂ فاتحہ پڑھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے، پھر میت کے واسطے اخلاس کے ساتھ دعا کرے، اور قرأت نہ کرے، مگر پہلی تکبیر میں، حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری (ص۶۹۰ج۱)[1] میں لکھا ہے کہ اسنا د اس کی صحیح ہے، نمازِ جنازہ میں سورۂ فاتحہ کو آہستہ پڑھنا چاہیے، نسائی میں حضر ت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نمازِ جنازہ میں سنت ی ہے کہ پہلی تکبیر میں سورۂ فاتحہ آہستہ پڑھی جائے پھر تین تکیریں کہی جائیں اور آخر تکبیر کے وقت سلام پھرا جائے۔ اسناد اس حدیث کی صحیح ہے اور یہ وہی حدیث ہے جو ابھی اوپر عبد الرزاق رحمۃ اللہ علیہ اور نسائی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہوئی ہے، نسائی میں یہ حدیث اسی طرح پرہے، اور صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک جنازہ پر نماز پڑھی، پس سورہ فاتحہ پڑھا اور کہا تاکہ تم لوگ جان لو کہ نمازِ جنازہ میں سورۂ فاتحہ پڑھنا سنت ہے، اور حاکم کی روایت میں پڑھا ہے(کذافی الفتح :ص۶۹۰ ج۱) تاکہ تم لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ نمازِ جنازہ میں الحمد پڑھنا سنت ہے، حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ان دونوں حدیثوں سے ثابت ہوا کہ نمازِ جنازہ میں سورۂ فاتحہ آہستہ پڑھنا چاہیے اور یہی مذہب ہے جمہورر[2] کا اور درود[3] کو بھی آہستہ پڑھنا چاہیے۔
[1] قال الحافظ فی الفتح (ص ۶۹۰ج۱) روی عبد الرزاق والنسائی عن ابی امامۃ بن سھل قال السنۃ فی الصلوٰۃ علی الجنازۃ ان یکبرثم یقرأبام القراٰن ثم یصلیی علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ثم یخلص الدعاء للمیت ولا یقرأالا فی الاولیٰ اسنادہ صحیح انتھٰی ۔ [2] قاضی شوکانی نیل (ص ۶۶ج۴) میں لکھتے ہیں قال بعض اصحاب الشافعی انہ یجھر باللیل کا للیلیۃ وذھب الجمھور رالییٰ انہ لا یستح الجھر فی صلوٰۃ الجنازۃ وتمسکوا بقول ابن عباس لم اقراؐای جھراً الالتعلموا انہ سنۃ وبقولہ فی حدیث ابی امامۃ سراً فی نفسہ انتھٰی [3] اس واسطے کہ نمازِ جنازہ میں درود کا جہر سے پڑھنا کسی حدیث صحیح صریح سے ثابت نہیں، رہی یہ بات کہ دعا کو آہستہ پڑھنا چاہیے یا جہر سے، سو اس کی نسبت قاضی شوکانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ظاہریہ ہے کہ دعا کو آہستہ پڑھا بھی جائز ہے اور جہر سے پڑھنا بھی جائز ہے۔ قال فی النیل قول عوف ابن مالک سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی علی جنازۃ یقول اللھم اغفر لہ الخ وفی روایۃ المسلم فحفظت من دعائہ وقول واثلۃ فسمعتہ یقول اللھم الخ ذلک یدل علی ان النی صلی اللہ علیہ وسلم جھر بالدعاء وھو خلاف ما صرح بہ جماعۃ من استحبابب الا سراربالد عاء وقد قیل ان جھرہ صلی اللہ علیہ وسلم بالدعاء لقصد تعلیمہم واخرج احمد عن جابر قال ما اباح لنا فی دعاء الجنازۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا ابو بکر ولا عمر وفسر ابباح بمعنی قدر قال الحافظ والذی وقفت علیہ باح بمعنی جھرو الظاھر ان الجھر والا سرار بالدعا جائزان انتھٰی۔النیل (ص۷۰ج۴ مصری ۱۹۶۱ء)