کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 305
کو باندھ لے اورر دعائے ثنا پڑھے جو اور نمازوں میں پڑھی جاتی ہے، پھر سوررہ فاتحہ پڑھے پھر بآواز بلند کہے اللہ اکبر ، پھر درود پڑھے جو اور نماز وں میں پڑھا جاتا ہے، پھر بآواز بلندکہے اللہ اکبر ،پھر دائیں[1] اور بائیں سلام پھیرے مقتدی لوگ بھی ٹھیک اسی طرح کریں،مگر تکبیر اور سلام بآواز بلند نہ کہیں ، چاروں تکبیروں میں رفع یدین کرنا کسی حدیث مرفوع صحیح ثابت نہیں، ہاں حضرت ابن عمر[2]ور حضر ت ابن عباس رضی اللہ عنہ چاروں تکبیر میںرفع یدین کرتے تھے۔ فصل میت اگر مرد ہوتو اس کے سر کے پاس اور عورت ہوتو اس کی کمر کے پاس امام کے کھڑے ہونے کی دلیل یہ ہے کہ مسند احمد اور ترمذی اور ابن ماجہ میں ابو غالب سے راوایت ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ایک مرد کے جنازہ کی نماز پڑھی تو اس کے سر کے پاس کھڑے ہوئے اور جب وہ جنازہ اٹھایا گیا تو ایک عورت کا جنازہ لایا گیا، پھر اس پر حضرت انس رضی اللہ عنہ نے جنازہ کی نمازِ پڑھی تو اس کے بیچ میں کھڑے ہوئے، اورہم لوگوں میں علاء بن زیاد علوی بھی تھے، انھوں نے جب مرد اور عوت کے جنازہ میں کھڑے ہونے کا یہ فرق دیکھا تو کہا اے ابو حمزہ (ابو حمزہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی کنیت
[1] موطا مالک رحمۃ اللہ علیہ میں نافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ جن نمازِ جنازہ پرھتے تو سلام پھیرتے، یہاں تک کہ اپنے قریب والوں کو سناتے ۔ [2] قال الحافظ فی الدرای(ص۱۴۵)عن ابن عمرؓ انہ کان یرفع یدیہ فی کل تکبیرۃ اخرجہ البخاری فی الجزئء المفر د باسناد صحیح واخرجہ الدارقطنی مرفوعا وقال الصواب موقوف انتھٰی ۔و قال فی التلخیص(ص۱۴۷ج۲ مدنی) وقد صح عند ابن عباسؓؓ انہ کا برفع یدیہ فی تکبیرات الجنازۃ رواہ سعید بن منصور انتھٰی۔