کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 302
پانچواں باب
نمازِ جنازہ کے بیان میں
نماز جنازہ کے واسطے وضو فروری ہے، جیسا کہ اور نمازوں کے لیے ضروری ہے اور جن جن صورتوں میں اور نماز وں کے واسطے تیمم کرنا جائز ہے ، انھی صورتوں میں نمازِ جنازہ کے لیے بھی تیمم کرنا جائز ہے، لیکن علمائِ سلف کی ایک جماعت[1] نے نمازِ جنازہ کے واسطے اس حالت میں بھی تیمم کو جائز رکھا ہے۔ جب کہ وضو کرنے میں نمازِ جنازہ کے فوت ہونے کا خوف ہو، اس بارے میں ایک حدیث مرفوع بھی آئی ہے، مگر وہ ضعیف ہے(دیکھو تخریج زیلعی:ص ۸۲ج۱) ایسی حالت میںحنفی مذہب بھی بھی تیمم کرنا جائز ہے۔ جو جنازہ کا ولی نہ ہو اور جنازہ کے ولی کو تیمم کرنا جائز نہیں۔
جنازہ کی نماز مسجد میں پڑھنا جائز ودرست ہے، صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہل اور ان کے بھائی سہیل کے جنازہ کی نماز مسجد میں پڑھی ہے، اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جنازہ کی نماز بھی مسجد ہی میں پڑھی گئی[2] ہے مگر مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنے کی عادت نہیں کرنی چاہیے، بلکہ نمازِ
[1] قال الحافظ فی الفتح (ص۶۸۴)قد ذھب جمع من السلف الی انہ یجزی لھا التیمم لمن خاف فواتھا لو تشاغل بالوضوء وحکاہ ابن المنذر عن عطاء وسالم والزھری والنخعی وربیعۃ واللیث والکوفیین وھی روایۃ عن احمد وفیہ حدیث مرفوع عن ابن عباس رواہ ابن عدی واسنادہ ضعیف ۔ انتھٰی
[2] درایہ (ص۱۱۴) تلخیص الجیر(ص۱۲۶ ج۲ مدنی) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری لکھتے ہیں: وقد روی ابن ابی شیبۃ وغیرہ ان عمر صلی علی ابی بکر فی المسجد وان صھیبا صلی علی عمر فی المسجد زاہ فی روایۃ ووضعت الجنازۃ فی المسجد تجاہ المنبر وھذ ا یقتضی الاجماع علی جواز ذلک ۔انتھٰی