کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 300
فائدہ: جنازہ کے ساتھ سوار ہو کر جانے کے متعلق حدیثیں مختلف آئی ہیں۔ بعض حدیثوں سے اس کی اجازت ثابت ہوتی ہے۔ جیسا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث جو ابھی مذکور ہو چکی ہے،اور بعض حدیثوں سے اس کی ممانعت ثابت ہوتی ہے، جیسا کہ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ میں چند آدمیوں کو دیکھا کہ وہ سوار ہیں پس آپ نے فرمایا کہ تم لوگوں کو شرم نہیں آتی کہ اللہ کے فرشتے تو اپنے قدموں پرہیں اور تم لوگ چارپایوں کے پیٹھوںپر۔(ترمذی و ابن ماجہ)ان مختلف حدیثوں میں اس طرح تطبیق دی گئی ہے کہ جنازہ کے ساتھ پیدال چلنا اولیٰ وافضل ہے، اور سوار ہو کر چلنا جائز ہے،مگر کراہت کے ساتھ۔
ہاں واضح رہے کہ سوار ہو کر جنازہ سے واپس ہونا بلا کر اہت جائز ہے،کیونکہ واپسی کے وقت سوار ہو نی کی اجازت ثابت ہے اور کسی حدیث سے اس کی ممانعت ثابت نہیں۔
فائدہ: جنازہ کے ساتھ کوئی کلمہ یا کوئی دعا یا قرآنِ مجید بآواز بلند پڑھتے ہوئے نہیں چلنا چاہیے[1] کیونکہ حدیث صحیح سے اس کا کچھ ثبوت نہیں ہے۔
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ جو اس مضمون کی ایک روایت آئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ کے پیچھے چلتے تھے۔ اور ہم لوگ جنازہ کے ساتھ جانے اور واپس آنے کی حالت میں آپ سے کچھ نہیں سنتے تھے۔ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ سو یہ روایت ضعیف ہے۔
فائدہ: عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے:
اذا رایتم الجنازہ فقوموا حتی تحلفکم
جب تم لوگ جنازہ دیکھو تو اٹھ کھڑے ہو یہاں تک کہ تم لوگوں سے آگے بڑھ جائے۔
[1] فقہائِ حنفیہ نے بھی لکھا ہے کہ جنازہ کے ساتھ چپ چاپ چلنا چاہیے، کوئی کلمہ یا کوئی دعا یا قرآنِ مجید بآواز بلند پڑھتے ہوئے نہیں چلنا چاہیے۔ دیکھو (درمختار وغیرہ )