کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 299
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ وامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہما کی دلیل ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر اور عمرص کو دیکھا کہ یہ لوگ جنازہ کے آگے چلتے تھے، روایت کیا اس کو احمد، ابو داود وترمذی ، نسائی اور ابن ماجہ نے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری (ص۶۸۰ج۱) میں لکھتے ہیں کہ اس کے تمام راوی صحیح کے راوی ہیں لیکن اس کے مرسل اور موصول ہونے میں اختلاف ہے اور بلوغ المرام میں لکھا ہے کہ اس حدیث کو ابن حبا ن رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح کہا ہے اور نسائی اور ایک جماعت نے اس کو ارسال کے ساتھ معلول کیا ہے۔ امام ابو حنیفہ [1]کی دلیل یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جنازہ کے پیچھے چلنا آگے چلنے سے افضل ہے، جیسا کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا پڑھنے سے افضل ہے ۔ روایت کیا اس کو سعید بن منصور وغیرہ نے، حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری(ص۶۸۰) میں لکھا ہے کہ اس کی اسناد حسن ہے اور یہ موقوف مرفوع کے حکم میں ہے لیکن اثرم نے کہا ہے کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی سند میں کلام کیا ہے۔ امام ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی دلیل یہ ہے کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوار جنازہ کے پیچھے چلے اور پیدل جنازہ کے پیچھے اور آگے اور داہنے اور بائیں اس کے نزدیک زندیک چلے، روایت کیا اس کو ابو داود نے اور ترمذی (ص ۱۶۷) میں یہ حدیث اس طرح پر ہے کہ سوار جنازہ کے پیچھے چلے اور پیدل جنازہ کے جس طرف چا ہے چلے کہا ترمذی نے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور حافظ نے فتح الباری صفحہ ۶۸۰ میں لکھا ہے کہ ابن حبان اور حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور ایک دلیل یہ ہے کہ حضر ت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم لوگ مشایعت کرنے والے ہو سو چلو جنازہ کے آگے اور اس کے پیچھے اور اس کے دائیں اور اس کے بائیں روایت کی اس کو بخاری نے تعلیقاً
[1] اس دلیل کے علاہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول کی اور بھی دلیلیں ہیں اسی طرح امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کی بھی اور دلیلیں ہیں، یہاں صرف ایک ایک دلیل لکھ دی گئی ہے۔