کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 296
پیچھے ،بلکہ جنازے کے کے قریب قریب چلنا چاہیے، مغیر بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوار جنازہ کے پیچھے چلے اور پیدا جنازہ کے پیچھے اورآگے اور دائیں اور بائیں اس کے قریب قریب چلے(ابوداود) عبد الرحمن بن قرط صحابہ رضی اللہ عنہم ایک جنازہ میں تشریف لے گئے پس دیکھا کہ کچھ لوگ جنازہ سے زیادہ آگے بڑھ ہوئے ہیں اور کچھ لوگ جنازہ سے زیادہ پیچھے ہٹے ہوئے ہیں ،توآپ نے فرمایا کہ جنازہ کو رکھ دو اورآگے بڑھنے والوں اور پیچھے رہنے والوں کی طرف پتھر چلایا ،یہاں تک کہ سب لوگ ان کے پاس جمع ہو گئے ، پھر آپ نے فرمایا کہ جنازہ اٹھاؤ پس جنازہ اٹھایا گیا۔پھر فرمایا کہ جنازہ کے آگے پیچھے دائیں بائیں ہو کر چلو ۔(رداہ سعید بن منصور) جنازہ کے ساتھ کسی سواری پر سوار ہو کر جانا جائز ہے، مگر اولیٰ وافضل یہ ہے کہ بلا کسی عذر کے سوار ہو کر نہ جائے، اور سوار ہو کر جنازہ سے واپس ہونا بلا کراہت جائز ہے، جنازہ کے ساتھ ہو کر جانے کا اتفاق ہو تو جنازہ کے پیچھے چلنا چاہیے، سوار ہو کر جنازہ کے آگے یادائیں بائیں نہیں چلنا چاہیے۔ جنازہ کے اٹھانے کا طریقہ یہ ہے کہ جنازہ کی چار پائی کے چاروں کناروں کو چار شخص کندھے پر اٹھائیں، ابن ماجہ میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے[1] کہ انھوں نے کہا جو شخص جنازہ کے ساتھ چلے، تو اس کو چاہیے کہ چار پائی کے چار وں جانب کو اٹھائے کیونکہ یہ سنت ہے،پھر اگر چاہے ثواب حاصل کرے اور اگر چاہے چھوڑدے۔ اور ترمذی (ص ۱۷۵ ) میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ،جو شخص جنازہ کے ساتھ چلا اور اس کی تین بار اٹھایا تو جو اس کے ذمہ تھا اس کو پورا کیا، اس حدیث کو عبد الرزاق نے اس طرح روایت کیا ہے کہ جس شخص نے جنازہ کو اس کے چاروں طرف سے اٹھایا ،تواس نے پورا کیا جو اس کے ذمہ تھا۔ ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ جنازہ کے ساتھ چلنے والوں کو کم از کم ایک ایک بار چاروں
[1] اس مضمون کی اور بھی روایتیں آئی ہیں۔