کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 295
چوتھا باب جنازہ اٹھانے اور اس کے ساتھ چلنے کے بیان میں جنازہ کے اٹھانے میں کسی قسم کی کچھ وناء ت نہیں ہے، خود حضور سرورِ عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ اٹھایا ہے اور بڑے بڑے جلیل القدر صحابہص اور تابعین اور ائمہ دین نے جنازہ اٹھایا ہے۔ پس جو شخص جنازہ کے اٹھانے میں وناء ت سمجھے وہ بلاشبہ ضعیف الا یمان ہے۔ جنازہ کے ساتھ چلنا ایک حق ہے ، منجملہ ان حقوق کے جو مسلمانوں میں باہم ایک دوسرے پر واجب ہیں، علاوہ اس کے جنازہ کے ساتھ چلنے میں بہت بڑا اثواب ہے ۔ حضرت ابر ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں میں باہم ایک دورسرے پر پانچ حق واجب ہیں، سلام کاجواب دینا، مریض کی عیادت کرنی، جنازہ کے ساتھ چلنا، دعوت کو قبول کرنا، چھینکنے والے کا جواب دینا۔ روایت کیا اس کو بخاری اور مسلم نے۔ نیز حضر ت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شخص ایمان کا کام سمجھ کر اور ثواب حاصل کرنے کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ جائے، اور برابر اس کے ساتھ رہے یہاں تک کہ اس کے جنازہ کی نماز پڑھے۔ اور اس کے دفن سے فارغ ہو تو وہ دو قیراط ثواب لے کر لوٹے گا ہر قیراط احد پہاڑ کے برابر ہوگا ۔اور جو شخص اس کے جنازے کی نماز پڑھ کر دفن سے پہلے ہی لوٹ آئے، تو وہ ایک قیراط ثواب لے کر لوٹے گا۔(بخاری ومسلم) سبحان اللہ جنازے کے ساتھ جانے میں کتنا بڑا ثواب ہے،مگر بہت سے مسلمان اپنی غفلت کی وجہ سے اتنے بڑے ثواب سے اپنے آپ کو محروم رکھتے ہیں۔ جنازہ کے ساتھ جانے والوں کو جنازہ کے آگے پیچھے دائیں بائیں ہر طرف چلنا جائز ہے رہی یہ بات کہ افضل کیا ہے؟ جنازہ کے آگے چلنا یا پیچھے ،سوا س کا بیان آگے آتا ہے۔ جنازہ کے ساتھ جانے والوں کو جنازہ سے نہ زیادہ آگے رہنا چاہیے اور نہ زیادہ