کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 293
ران وغیرہ بدن کے جس حصہ پر لپیٹ سکیں لپیٹیں ،سو اس کی وجہ یہ ہے کہ بخاری میں حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم لوگ غسل دے کر فارغ ہونا تو مجھے خبر کرنا، پس جب ہم غسل دینے والی عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کو غسل دے کر فارغ ہوئیں ، تو آپ کو خبر دی تو آپ نے اپنی کمر سے تہبند کھول کر ہمیں دیا، اور فرمایا اشعر نھا ایاہ یعنی اس تہبند میں ان کو لپیٹو کہ بدن سے متصل رہے بخاری میں بعض رُداۃ سے اس لفظ کی تفسیر بلفظ الففنھا مروی ہے، یعنی ان کو اس تہبندمیںلپیٹو ونیز بخاری میں ہے وکذلک کان ابن سیرین یا مر بالمراۃ ان تشعرولا تؤزر، یعنی اسی طرح پر ابن سیرین حکم کرتے تھے کہ عورت کو تہبند میں لپیٹنا چاہیے اور زندہ کی طرح کمرسے باندھنا نہیں چاہیے علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ اس کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ => میں کہتا ہوں کہ فقہائِ حنفیہ دو ضفیرہ بنانے کو کہتے ہیں۔ تین ضیفربنانے کے قائل نہیں۔پس ابن حبان کی حدیث مذکور بلاشبہ ان پر حجت ہے ، اور علامہ عینی کا یہ فرمانا کہ ’’ضفیروں کا پیچھے ڈالنا زینت میں ڈاخل ہے۔‘‘سو اگر تسلیم کر لیا جائے کہ یہ زینت میں داخل ہے تو اس کا ممنوع وناجائز ہونا غیر مسلم ہے۔کیونکہ اگر یہ ناجائز ہوتا تو ام عطیہ رضی اللہ عنہا وغیرہ صحابیہ عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کے ضفیروں کو پیچھے نہ ڈالتیں ،بلکہ سینہ پر ڈالیتیں اور ظاہر یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ام عطیہ رضی اللہ عنہا وغیرہا کے اس فعل کی اطلاع رہی ہو گی واللہ تعالیٰ اعلم ۔ شرح میں لکھتے ہیں ای ولا تجعل الشعار علیھا مثل الازار لان الا رار کا یعم البدن بخلاف الشعار انتھی حاصل اس کا یہ ہے کہ تہبند کو زندہ کی طرح کمر میں باندھنا نہیں چاہیے، کیونکہ اس طرح باندھنے سے بدن کے زیادہ حصہ کو نہیں گھیرے گا ،بلکہ تہبند میں عورت کو لپیٹنا چاہیے۔