کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 288
بہتر ہے۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ میت کی ازار کو زندہ کی ازار کی طرح کمر سے باندھنے سے بہتر ہے کہ اس کو لفافہ بنایا جائے اور اس میں میت کو لپیٹا جائے۔ میت کو سلے ہوئے کرت میں بھی کفنانا درست ہے۔[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن اُبی کے کفنانے کے لیے اپنا کرتا دے دیا تھا، جیساکہ اوپر معلوم ہوا،اور نسائی (سلفی :ص ۲۲۴ج۱) میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو اپنے جبر میں کفنایا تھا۔ اگر کوئی محرم مرد حالت احرام میں مر جائے تو اس کو غسل دے کر اس کے احرام کے صرف دونوں کپڑوں میں کفنائیں اور اس کا سر نہ چھپائیں اور نہ اس کے بد وکفن میں خوشبو لگائیں بخاری اور مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہم [2]سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ پس اس کی اونٹنی نے اس کو گرادیا اور وہ مر گیا۔ اور وہ شخص محرم تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو پانی اور بیر کے پتوں سے غسل دو اور اس کے دونوں کپڑوں میں اس کو کفناؤ ،اور اس کو خوشبو نہ لگاؤ ، اور اس کے سر نہ چھپاؤ ۔اس واسطے کہ وہ قیامت کے دن لبیک پکارتا ہوا اٹھایا جائے گا۔
[1] بعض فقہائِ حنفیہ نے لکھا ہے کہ اگر زندہ کا کرتا کفن میں دینا چاہیں تو اس کا چاک گر بیان اور اس کی دونوں آستیں کاٹ ڈالیں ۔‘‘سو اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ [2] حنوط ایک مرکب خوشبو کا نام ہے جو خاص مردوں کے بدن اور کفن میں لگانے کے واسطے بنائی جاتی ہے، مجمع البحار اور نہایہ میں ہے الحنوط ما یخلط من الطیب لا کفان الموتی واجسامھم للموت انتھی، ہمارے ملک ہندوستان میں حنوط نہیں ملتا ہے،پس بجائے اس کے عطر استعمال کرنا چاہیے اور اگر مشک مل شکے تو اس کو بھی بجائے حنوط کے استعمال کرنا جائز ہے، سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے حکم کیا تھا کہ جب میں مر جاؤں تو مجھے مشک لگانا (کذانی الداریہ:ص ۱۴۱) اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وصیت کی تھی کہ میرے پاس جو مشک موجود ہے اسی مشک کو بجائے حنوط کے استعمال کر نا اور کہا کہ یہ مشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنوط کا فضلہ ہے ۔(کذانی التلخٰص:ص ۱۰۷ج۲)مدنی