کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 287
اور میت کے ازار کے متعلق فقہائِ حنفیہ لکھتے ہیں کہ سر سے قدم تک ہونا چاہیے۔[1] اور میت کو اس میں لپیٹنا چاہیے۔ اور زندہ کے ازار کی طرح میت کی ازار کو کمر سے باندھنا نہیں چاہیے۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ موطا میں لکھتے ہیں۔ الا زار یجعل لفافۃ احبب الینا من ان یؤز و ’’ ہمارے نزدیک میت کی ازار کو ازار بنانے سے اس کا لفافہ بنانا
[1] علامہ ابن الہام نے فتح الباری (ص۲۷۸ج۱)میں لکھا ہے کہ زندہ کی ازار اور میت کی ازار میں فرق کرنے کی کوئی وجہ حدیث سے نہیں جانتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس محرم کے بارے میں جر مر گیا تھا فرمایا کہ’’اس کو اس کے دونوں کپڑوں میں کفناؤ‘‘ اور اس محرم کے دو کپڑے وہی احرام کے دوکپڑے چادر اور ازار تھی اور یہ معلوم ہے کہ اس کی وہ ازار کمر سے تھی اور اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازار ان عورتوں کو دی تھی جنھوں نے آپ کی بیٹی کو غسل دیا تھا اس سے بھی ظاہر ہے کہ میت کی ازار زندہ کیازار کی طرح کمر سے ہونی چاہیے، پس میت اگر مرد ہے تو اس کی ازار بھی اسی طرح کمر سے ہونی واجب ہے، کیونکہ عورت اور مرد کی ازار میں اس بارے میں کچھ فرق نہیں۔ انتحی کلامہ مترجما علامہ طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ نے ابن الہام کی اس بحث کو حاشیہ درمختار میں نقل کر کے لکھا ہے کہ’’مجھے اکثر یہ بات کھٹکا کرتی تھی یہاں تک کہ میں نے اس کو ابن الہام کے کلام میں دیکھا۔‘‘فتفکر وتامل