کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 281
بعض کہتے ہیں اس طرح لٹایا جائے کہ اس کے پیر قبلہ کی طرف ہوں، فقیہ رخسی حنفی کہتے ہیں کہ اصح یہ ہے کہ جس رخ لٹانے میں آسانی ہو اسی رخ لٹائیں۔ فائدہ:حنفی مذہب کی کتابوں میں لکھا ہے کہ’’جس تخت پر میت کو غسل دینا ہو اس کو پہلے کسی خوشبودار چیز مثلاً اگر یالو بان سے تین بار یا پانچ بار دھونی دے لیں۔‘‘ لیکن اس دھونی کا ثبوت حدیث سے نہیں ملتا ہے۔ ہاں کفن کے دھونی دینے کا ثبوت حدیث سے ہے جیسا کہ تم کو آگے معلوم ہو گا۔ فائدہ: اوپر حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کو پانی اور بیر کے پتوں سے غسل دینا چاہیے۔ رہی یہ بات کہ بیر کے پتوں کو کس طریق سے استعمال کرنا چاہیے، سو اس کے متعلق حدیث سے کوئی تشریح نہیں ملتی ہے۔ فقہائِ حنفیہ لکھتے ہیں کہ بیر کے پتوں کو پانی میں جوش دیا جائے اور اسی جوش دیے ہوئے پانی سے میت کو غسل دیا جائے۔ اور علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ بیری کے پتوں کو پانی میں ڈالیں اور پانی کو خوب حرکت د یں، یہاں تک کہ گاج نکلے،م پس اس گاج کو میت کے تمام بدن ر ملیں ۔ پھرخالص پانی ڈالیں یہ ایک غسل ہوا ملک عرب میں یہ دستور ہے کہ بیری کے پتوں کو پانی میں پیس کر میت کو تمام بدن پر ملتے ہیں پھر خالص پانی سے بد کو صاف کر دیتے ہیں۔ فائدہ:میت چونکہ منہ اورناک سے پانی خارج نہیں کر سکتی ، اس وجہ سے فقہائِ حنفیہ کہتے ہیں کہ میت کو بلا مضمضہ واستنشاق کے وضو کرنا چاہیے۔ اور بعض فقہاء لکھتے ہیں کہ میت کو مضمضہ اور استنشاق اس طرح کرایا جائے کہ انگلی میں کپڑا لپیٹ کر اس کے مسوڑھوں اور دانتوں اور لبوں کو مل دیا جائے اور ناک کے نتھنوں میں انگلی پھرائی جائے۔ اور بعض فقہاء لکھتے ہیں کہ میت اگر جنب ہو تو اس کو مضمضہ اور اسنشاق کے ساتھ وضو کرانا چاہیے۔ اور فقہائِ شافعیہ لکھتے ہیں کہ میت کو مضمضہ اور استنشاق کے ساتھ وجو کرانا چاہیے جنب ہو یا نہ ہو۔ میں کہتا ہوں کہ ظاہر یہی ہے کہ میت کو مضمضہ (کلی کرانا) اور استنشاق(ناک میں پانی ڈالنا) کے ساتھ وضو کرنا چاہیے۔ اور اگر مضمضہ اور استنشاق نہ ہو سکے تو وہی کیا جائے جو فقہائِ حنفیہ نے لکھا ہے، یعنی انگلی میں کپڑا لپیٹ کر اس کے مسوڑھوں اور دانتوں اور لبوں