کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 279
نہیں ،بلکہ استحبابی ہے۔ یعنی غسل دینے والا غسل کر لے تو بہتر ہے ، اور اگر غسل نہ کرے تو کچھ حرج نہیں۔اور اسی طرح میت کا اٹھانے والا اگر پھر سے وضو کر لے تو بہتر ہے۔ اور اگر پھر سے وضو نہ کرے کچھ حرج نہیں۔ فقہائِ حنفیہ [1] کے نزدیک بھی غسل دینے والے کو غسل کر لینا مستحب ہے۔
میت کے غسل دینے کا طریقہ
میت کو غسل دینے کا ارادہ کریں تو اس کا کپڑا اتاردیں ۔ مگر بدن کا جتنا حصہ زندگی کی حالت میں چھپانا ضروری ہے اس کو بے ستر نہ کریں، پھر ہاتھ میں کپڑا لپیٹ کر اس کا استنجا کرائیں اور بدن پر کہیں نجاست ہو تو اس کو بھی پاک کریں، پھر وضو کرائیں اور سر اور داڑھی میں بال ہوں تو خطمی سے یا کسی اورصاف کرنے والی چیز سے دھوئی ، اوراگر میت عورت ہو تو اس کے سر کی چوٹیوں کو کھول کر اس کا سر د ھوئیں ،پھر تین بار پائی اور بیری کے پتوں سے غسل دیں،ا ور اخیر بار پانی میں کافور ملائیں، اگر تین بار سے زیادہ غسل دینے کی ضرورت معلوم ہو تو پانچ بار غسل دیں یا پانچ بار سے بھی زیادہ، مگر طاق ہونا چاہیے، اور غسل دینے میں دا ہنی طرف سے شروع کریں۔ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کو غسل دے رہی تھیں۔ اسی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر داخل ہوئے اور فرمایا کہ ان کو غسل دو پانی اور بیری کے پتوں سے تین بار یا پانچ بار یا اس سے زیادہ اگر تم کو ضرورت معلوم ہو،[2] اور اخیر غسل میں کافرور ڈالو۔ایک اور روایت میں ہے کہ ان کی دا ہنی طرف سے اور وضو کی جگہوں سے شروع کرو۔(بخاری ومسلم)
[1] کتب فقہ میں ہے ویند ب الغسل لمن یغسل یعنی میت کو جو شخص غسل دے اس کو غسل کر لینا مستحب ہے۔(فتح القدیر:ص ۲۷۷ج۱، شامی:ص۹۰۰ج۱)
[2] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کے تینوں غسل پانی اور بیری کے پتوں سے ہونے چاہییں،اور تیسرے غسل میں کچھ کافور بھی ملا لینا چاہیے، لیکن سنن ابو داود میں محمد بن سیرین سے روایت ہے کہ انھوں نے غسل میت کا طریقہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے سیکھا تھا، وہ غسل دیتے تھے پانی اور بیری کے پتوں سے دوبارہ اور تیسری بار پانی اور کافور سے ۔