کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 277
میں ایک مرسل حدیث بھی آئی ہے۔ یہ حدیث سبل السلام (ص۱۲۶ج۲) میں مذکور ہے۔ ابو داود رحمۃ اللہ علی ہ نے اپنی کتاب مراسیل میں مکحول سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی عورت مرے اور مردوں کے سواکوئی دوسری عورت نہ ہو، اور کوئی مرد مرے اور عورتوں کے سوا کوء دوسرا مرد نہ ہو تو اس عورت اور مر د کو تیمم کرایا جائے اوردفن کیے جائیں، اور وہ دونوںبجائے ایسے شخص کے ہیں جس کو پانی نہ ملے۔ شوہر کو جائز ہے کہ اپنی بیوی کو غسل دے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے : لو مت قبلی لغسلتک الحدیث(مسند احمد وابن ماجہ وصححہ ابن حبان ، بلوغ المرام) ’’اے عائشہ رضی اللہ عنہا اگر تو مجھ سے پہلے مرتی تو میں تجھ کو غسل دیتا۔‘‘ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ کو غسل دیا تھا۔ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ جب فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو میں نے اور علی رضی اللہ عنہ نے ان کو غسل دیا۔[1] ان دونوں روایتوں سے معلوم ہوا کہ شوہر کو جائز ہے کہ اپنی بیوی کو غسل دے ۔اور یہی مذہب ہے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور ِعلماء کا[2] اور بیوی کو بھی جائز ہے کہ اپنے شوہرکو غسل دے۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ان کی بیوی نے غسل دیا تھا، فقہائِ حنفیہ کے نزدیک بھیجائز ہے کہ عورت اپنے شوہر کو غسل دے۔
[1] ۔۔۔۔۔۔۔ [2] فقہائِ حنفیہ کہتے ہیں کہ شوہر کو جائز نہیں کہ اپنی بیوی کو غسل دے یا اس کو چھوئے ، اور یہ دلیل بیان کرتے ہیں کہ بیوی کے مرنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے اور شوہر ،شوہر باقی نہیں رہتا ہے،بلکہ اجنبی ہو جاتا ہے، مگر اس حکم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متثنی تھے۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ور حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے قرابت مند بھی مستثنی تھے۔اس واسطے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موت سے ہر سبب اور نسب ٹوٹ جاتا ہے، مگر میرا سبب اور نسب ۔پس اس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو فرمایا تھا کہ تو اگر مجھ سے پہلے مرتی تو میں تجھ کو غسل دیتا اور اسی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کا غسل دیا تھا۔‘‘میں کہتا ہوں کہ فقہائِ حنفیہ کی یہ دلیل صحیح نہیںخو د فقہائِ حنفیہ نے اس کو مخدوش کر دیا ہے، علامہ طحاوی رحمۃ اللہ علیہ حاشیہ در مختار (ص۳۶۷ج۱) میں لکھتے ہیں وفیہ انہ لو اعتبر ذلک لما جار لعلی تذوج بمحرم لفاطمۃ وقد ثبت انہ تزوج بنت اختھا باذن منھا بعد موتھا واما الحدیث فھو فے الاخرۃ کما ستقف علیہ ایضافان عثمان تزوج البنت الثایۃ لہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔انتھٰی یعنی حنفیہ کی اس دلیل پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اگر اس کا اعتبار کیا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نکاح نہیں ٹوٹا ،بلکہ علی حالہ باقی رہا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے کسی محرم سے نکاح کرنا جائز نہ ہوتا حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ کے مرنے کے بعد ان کی بھانجی سے نکاح کی ہے۔ لیکن یہ حدیث کہ’’موت سے ہر سبب اور نسب ٹوٹ جاتا ہے،مگر میرا سبب اور نسب‘‘ سو یہ آخرت کے متعلق ہے اور نیز حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے( اپنی زوجہ رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرنے کے بعد)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیٹی(ام کلثوم) سے نکاح کیا ہے، پھر علامہ طحاوی نے کچھ آگے چل کر یہ ثابت کیا ہے کہ حدیث مذکورہ آخرت سے متعلق ہے، اور علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ عمدۃ القاری (ص۴۷ج۴) میں لکھتے ہیں۔ فیہ نظ رلانہ لو بقیت الوبیۃ بینھما لما تروج علی امامۃ بنت زینب بعد موتت فاطمۃود مات عن حرائر۔ یعنی فقہائِ حنفیہ کی اس دلیل پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے درمیان زوجیب باقی رہتی، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مرنے کے بعد امامہ بنت زینب سے ہر گز نکاح نہ کرتے، حالانکہ حضرت علیٰ رضی اللہ عنہ نے چارہ حرہ بیویاں چھوڑ کر انتقال فرمایا تھا۔ اور وہاں یادرہے کہ فقہائِ حنفیہ جو حدیث مذکور پیش کرتے ہیں اس کا ایک جواب تو وہی ہے جو علامہ طحاوی نے لکھا ہے اور دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث بہت ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے، اس کی سند میں خارجہ بن مصعب واقع ہیں، اور یہ متروک ہیں اور کذابین سے تدلیس کرتے ہیںاور ابن معین رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو کاذب کہا ہے دیکھو الفوائد الجموعہ (ص۱۰۶)۔تقریب ۔