کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 275
میرا بھائی مر گیا اور تین سو اشرفیاں چھوڑ گیا، اور چھوٹے بچوں کو چھوڑا، تو میں نے ارادہ کیا کہ ان اشرفیوں کو ان بچوں پر خرچ کروں۔پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا بھائی اپنے قرض کے ساتھ مقید ہے ، سو تو اس کا قرض ادا کر، سعد بن اطول کہتے ہیں کہ میں نے اپنے بھائی کا کل قرض ادا کر دیا۔(مسند احمد) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص قرض دار مر ے اور مال چھوڑ جائے تو اس کے وارثوں کولازم ہے کہ اس کا قرض فوراً ادا کر دیں، اورا گر اس نے مال نہیں چھوڑا ہے تو اگر قرض خواہ لوگ قرض کو معاف کر دیںیا وارث لوگ یا کوئی اور صاحب اس کا قرض اپنی طرف سے ادا کر دیں، تو خود بھی بہت بڑے ثواب کے مستحق ہو نگے۔ اور میت قرض دار کو بھی قرض کی قید سے رہائی ہو جائے۔ ابو الیسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من انظر معسراً اووضع عنہ اظلہ اللہ فی ظلہ یعنی’’ جس شخص نے کسی محتاج قرض دارکو مہلت دی یا اس کا قرض معاف کر دیا، تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سایہ میں جگہ دے گا۔(مسلم) اور ابو قتادہ کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کی مصیبتوں سے نجات دے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ایسے شخص کے جنازہ کی نماز نہیں پڑھتے تھے ،جو قرض دار مرتا اور مال نہ چھوڑ جاتا ، جس سے اس کا قرض ادا کیا جاتا،بلکہ صحابہص کو فرماتے کہ تم لوگ اس کے جنازہ کی نماز پڑھ لو، پھر جب فتوحات ہوئیں اور غنیمت کے مال آئے ،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی قرض دار میت کا قرض خود اپنی طرف سے ادا فرماتے اور اس کے جنازہ کی نماز پڑھتے۔