کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 254
حال معلوم نہیں اور اسی طرح ابن عمر رضی اللہ عنہ اور زید کے اثر کی سند کا حال معلوم نہیں اور اگر یہ آثار صحیح بھی فرض کر لیے جائیں تو بھی حجت نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ صحابہ کے افعال ہیں اور افعال بھی ایسے کہ جس میں قیاس واجتہاد کو دخل ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم سوال6: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بہت بڑے متبع سنت تھے اتبانِ سنت میں آپ کا تشدد مشہور ہے ۔ پس ظاہر یہی ہے کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکبیراتِ عیدین میں رفع الیدین کرتے ہوئے دیکھا ہو گا اور آپ کا تکبیراتِ عیدین میں رفع الیدین کرنا اتبا عاً للسنۃ ہو گا۔؟ جواب: بے شک حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بہت بڑے متبعِ سنت تھے،مگر آپ کے بہت بڑے متبع سنت ہونے سے یہ لازم نہیں کہ آپ کا ہر فعل اتباعاً للسنتہ ہی ہو۔ دیکھئے آپ وضو میں پیروں کی سات سات بار دھوتے تھے، کیا آپ کا یہ فعل بھی اتباعاً للسنتہ تھا۔ اگر آپ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے افعال کا متبع کریں گے تو ایسی متعدد مثالیں آپ کو ملیں گی۔ واللہ تعالیٰ اعلم سوال 7: حنفیہ اور شافعیہ اور حنابلہ تکبیراتِ عیدین کے رفع الیدین کے ثبوتت میں دونوں حدیثیں اور آثار مذکورہ بالا کے سوا کوئی اور بھی دلیل پیش کرتے ہیں؟ جواب : یہ لوگ اس بارہ میں کوئی اور دلیل احادیث مرفوعہ یا اثار صحابہ رضی اللہ عنہم سے پیش نہیں کرتے۔ ہاں قیاسات البتہ پیش کرتے ہیں۔ شافعیہ تکبیراتِ عیدین کے رفع الیدین کو رفع الیدین عند القیام وعند الرکوع وعند الرفع من الرکوع پرقیاس کرتے ہیں اور حنابلہ تکبیراتِ جنازہ کے رفع الیدین پر قیاس کرتے ہیں۔ مگر ان قیاسات کی صحت غیر مسلم ہے۔اور برتقدیر صحت ان قیاسات کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابو یوسف سے مروی ہے کہ تکبیراتِ عیدین میں رفع الیدین نہیں کرنا چاہیے۔ علامہ ابن الہمام فتح القدیر میں لکھتے ہیں۔ تقدم الحدیث فی باب صفۃ الصلواۃ ولیس فیہ تکبیرت الاعباد واللہ اعلم فما روی عن ابے یوسف انہ لا ترفع الایدی فیھا لا یحتاج فیہ الی القیاس علے تکبیرات الجنائز یکفی فیہ