کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 229
کی حدیث صحیح ان کو مل گئی ۔ واللہ تعالیٰ اعلم اس سوال کا ایک دوسرا جواب یہ ہے کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے تکبیرات عیدین کے بارے میں حدیث صحیح کے مروی ہونے کی نفی کی ہے۔ پس اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان کے نزدیک اس بارے میں کوئی حدیث حسن وقابل احتجاج مروی نہواور جو مروی ہو وہ ضعیف وناقابل احتجاج ہی مروی ہو کیونکہ نفی روایت صحیح ، نفی روایت حسن کو یار وایت ضعیف کو مستلزم تھیں۔ چنانچہ دیکھئے کہ تسمیہ فی الوضو کے بارے میں انھی امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول ہے کہ لا اعلم فی التسمیۃ حدیثا ثا بتا یعنی تسمیہ فی الوضوکے بارے میں مجھے کسی حدیث ثابت کا علم نہیں۔ کوئی حدیث ثابت نہیں جانتا۔ اور تو سعہ علی العیال یوم عاشورہ کے بارے میں انھیں امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول ہے کہ لا یصح یعنی تو سعہ کی حدیث صحیح نہیں ہے۔ امام ممدوح کے ان دونوں قولوں کے کئی جواب دیئے گئے ہیں۔ ازاں جملہ ایک یہی ہے جو ہم نے ابھی بیان کیا حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نتائج الافکار میں لکھتے ہیں۔ ثبت عن احمد بن حبنل انہ قال لا اعلم فی التسمیۃ ای فی الوضو حدیثا ثابتا قلت لا یلزم من نفی العلم ثبوت العدم وعلی التنزل لا یلزم من نفی الثبوت ثبوت الضعف لا حتمال ان یراد بالثبوت الصحۃ فلا ینتفی الحسن وعلی التنزل لا یلزم من نفی الثبوت عن کل فردتقیہ عن المجموع انتھٰی۔ اما م احمد رحمۃ اللہ علیہ سے یہ ثابت ہے کہ انھوں نے کہا ہے کہ وضو کرتے وقت بسم اللہ کہنے کے بارے میں کوئی حدیث ثابت میں نہیں جانتا ۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں کسی چیز کے متعلق علم نہ ہونا اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ اس کا وجود ہی نہیں۔ اور اگر ایک لمحہ کے لیے اسے تسلیم بھی کر لیا جائے تب بھی یہ بات لازم نہیں آتی کہ ثبوت کی نفی سے ضعف ثابت ہو جائے کیونکہ اس بات کا احتمال ہے کہ لفظ ’’ثبوت‘‘ سے مراد صحت ہو نہ کہ حسن ، اور پھر اس سے بھی بڑھ