کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 228
ابن قطان فارسی فرماتے ہیں مراد یحییٰ بن معین جب کسی کے بارے میں کہیں کہ :لیس بشیء تو اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اس سے مروی احادیث کی تعداد کم ہے۔ اور حافظ سخاوی فتح المغیث میں لکھتے ہیں۔ قال ابن القطان ان ابن معین اذا قال فی الراوی لیس بشی ء انما یرید انہ لم یروحد یثا کثیرا انتھٰی۔ کذاففی الرفع والتکمیل یعنی ابن معین کے قول’’ لیس بشیء‘‘ سے مراد یہ ہے کہ راوی کثیر الروایۃ نہیں ۔ واضح ہو کہ شواہد میں جو باقی اور روایتیں ذکر کی گئی ہیں، وہ بھی محض استثہاداً ومتابعتاً ذکر کی گئی ہیں نہ احتجاجاً واستدلالاً ۔پس ان کا بھی ضعف کچھ مضر نہیں ہے۔ سوال نمبر 9: یہ تو معلوم ہوا کہ عمر و بن شعیب کی حدیث مذکورہ صحیح وقابلِ احتجاج ہے بالخصوص جبکہ دس روایتیں اس کی مؤید وشاہد ہیں ، مگر امام احمد کے اس قول کا کیا جواب ہے کہ لیس یروی فی التکبیر فی العیدین حدیث صحیح کذا فی الجرھرا النقی وغیرہ یعنی تکبیرات عیدین کے بارے میں کوئی صحیح حدیث روایت نہیں کی گئی ہے جواب بقاعدہ اصول حدیث یا اصول فقہ ہونا چاہیے۔؟ جواب: اوپر معلوم ہو چکا ہے کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے خود عمرو بن شعیب کی حدیث مذکور کو روایت کیا ہے اور اس کو صحیح کہا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اسی حدیث پر میں عمل کرتا ہوں پس امام احمد کا یہ قول جو’’ جوہر النقی‘‘ سے نقل کیا گیا ہے۔ ان کے اس دوسرے قول وفعل کا معارض ہے پس یا تو یہ کہو کہ امام ممدوح کے دونوں قول بقاعدہ فقہائِ حنفیہ اذا تعارضا تساطقا ساقط ہیں یا یہ کہو کہ ان کا پہلا قول اس وقت کا ہے کہ جب ان کو عمر وبن شعیب کی حدیث صحیح ملی نہیں تھی اور ان کا یہ دوسرا قول وفعل اس وقت کا ہے،جبکہ عمرو بن شعیب