کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 224
نیز تخریج زیلعی میں ہے۔ قال البخاری رأیت احمد بن حنبل وعلی بن عبد اللہ وابن راھویہ والحمید ی یحتجون بحدیث عمر وبن شعیب عن ابیہ فمن الناس بعدھم۔ یعنی امام بخاری نے کہا کہ میں نے احمد بن حنبل ، علی بن عبد اللہ، ابن راہویہ اور حمیدی کو دیکھا کہ یہ لوگ عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی حدیث سے احتجاج کرتے تھے، پھر ان لوگوں کے بعد اور کون لوگ ہیں۔ جو انکار کی جرأت کر سکتے ہیں۔ دیکھئے محدثین نے کس طرح وضاحت کی دی ہے کہ عمرو کو اپنے باپ شعیب سے سماع ہے اور شعیب کو ان کے داد عبد اللہ بن عمرو سے سماع ہے۔ پس باوجود اس تصریح وتنصیص کے امام طحاوی کا یہ قول کہ اس سلسلہ میں سماع نہیں ہے کیونکر صحیح ہو سکتا ہے۔ سوال نمبر 5:دس روایتیں جو عمرو بن شعیب کی حدیث مذکور بن تائید واستشہاد میں نقل کی گئی ہیں۔ ان میں سے پہلی روایت کی سند میں بقیہ واقع ہیں اور علامہ علاو الدین اس روایت کو نقل کر کے لکھتے ہیں کہ ’’اس کی سند میں بقیہ واقع ہیں اور بقیہ متکلم فیہ ہیں۔‘‘ پس بقیہ کی روایت شواہد میں کیوں ذکر کی گئی ؟ جواب: بے شک بقیہ متکلم فیہ ہیں ،مگر ان کی روایت استثہاداً اور متابعۃً پیش کی گئی ہے۔ نہ احتجاجاً واستدلالاً ۔ اور بقیہ کی روایتیں بلاشبہ استثہاد کے قابل ہوتی ہیں امام مسلم نے اپنے صحیح میں ان سے متابعۃً روایت کی ہے علاوہ اس کے پہلی روایت جو امام بیہقی کے سنن کبریٰ سے منقول ہے وہ سنن ابن ماجہ میں دوسری سند سے مروی ہے جس میں بقیہ نہیں ہے۔ پس پہلی روایت بوجہ تعد د طرق کے اور بوجہ شواہد مذکورہ کے درجہ حسن تک پہنچ سکتی ہے۔ پس اس اعتبار سے یہ پہلی روایت اس قابل ہے کہ احتجاجاً پیش کی جائے۔ اور جب یہ پہلی روایت احتجاجاًپیش کرنے کے قابل ہے تو ظاہر ہے استثہاداً متابعۃً پیش کرنے کے لیے بدرجہ اولیٰ قابل ہو گی۔