کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 222
وفق ماوجہ الی القائل من السوال وامثلۃ ذلک کثیرۃ لا نطیل بھا منھاما قال عثمان الدارمی سالت ابن معین عن العلاء بن عبد الرحمن بن ابیہ کیف حدیثھما فقال لیس بہ باس قلت ھو احب الیک اوسعید المقبری قال سعید اوثق والعلاء ضعیف نھذا لم یردبہ ابن معین ان العلاء ضعیف مطلقا بدلیل انہ قال لا باس بہ وانما اردبہ ضعفہ بالنسبۃ لسعید المقبری وعلی ھذا یحمل اکثر ماورد من الاختلاف فی کلام ائمہ الجرح والتعدیل ممن وثق رجلا فی وقت وجرحہ فی وقت کذافی الرفع والتکمیل۔
علامہ سخاوی کے اس کلام کا حاصل بھی وہی ہے جو حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بذل الماعون میں لکھا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
سوال نمبر 4: یہ تو معلوم ہو ا کہ عبد اللہ بن عبد الرحمن طائفی مقبول وقابلِ احتجاج ہیں اور امام طحاوی اور علامہ علاو الدین ہما کا ان کو ضعیف بتانا اور ان کی وجہ سے عمر بن شعیب کی روایت کردہ حدیث کو ضعیف کہنا ناقابلِ التفات ہے، مگر امام طحاوی نے عمر و بن شعیب کی حدیث مذکور کے ضعیف ہونے کی ایک وجہ اور لکھی ہے وہ یہ کہ عمر بن شعیب نے اس حدیث کو بسلسلہ عن ابیہ عن جدہ روایت کیا ہے اور اس سلسلہ میں سماع نہیں ہے ،چنانچہ امام مدوح شرح معانی الآثار میں لکھتے ہیں۔
ثم ھو ایضاعن عمر وبن شعیب عن ابیہ عن جدہ و ذلک عندھم ایضالیس بسماع
پس اس کا کیا جواب ہے؟
جواب: اس سلسلہ میں بلاشبہ سماع ہے محدثین نے اس کی صاف تصریح کی ہے عمر و بن شعیب نے حدیث مذکورہ کو اپنے باپ شعیب سے روایت کیا او ر شعیب نے اپنے داد