کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 195
ناواقفی ہے۔ ثالثاً: اس وجہ سے کہ حماد بن زید کے فعل کے خلاف ایک ہاتھ سے مصافحہ کے مسنون ہونے کے بارے میں متعدد حدیثیں موجود ہیں۔ دیکھو پہلا باب ۔ پس باوجود موجود ہونے احادیث متعدد ہ کے حماد بن زید کے فعل بلادلیل کو پیش کرنا اور پھر یہ لکھنا کہ جو لوگ دو ہاتھ سے مصافحہ کو خلافِ سنت کہتے ہیں۔ تاوقتیکہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے کی کوئی حدیث پیش نہ کریں۔الخ صاف اور کھی ناواقفی اور بے خبری ہے۔ رابعاً : اس وجہ سے کہ ابو اسماعیل بن ابراہیم کی روایت سے حماد بن زید کا دونوں ہاتھ سے مصافحہ کرنا تو ثابت ہے ،مگر عبد اللہ بن مبارک کا دونوں ہاتھ سے مصافحہ کرنا ہر گز ثابت نہیں ہوتا پس اس روایت کو اس دعوی کے ثبوتت میں پیش کرنا کہ دونوں جانب سے دونوں ہاتھ ملانا سنت ہے۔ صاف فافہمی ہے۔ اور واضح رہے کہ مستدل کا ایک حماد بن زید کا فعل (اور و بھی ایک مربہ کا فعل) پیش کر کے یہ لکھنا کہ اس روایت سے بخوبی واضح ہے کہ مصافحہ دونوں ہاتھ سے زمانہ خیر القرون میں عمل درآمد تھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے دیکھنے والے یعنی حضرات تابعین رحمۃ اللہ علیہ بھی دو ہی ہاتھ سے مصافحہ کرتے تھے محض جھوٹ ہے اورعوام اہلِ اسلام کو صاف معالطہ دینا ہے۔ اور اگر غور وتدبر سے کام لیا جائے تو اسی روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں دونوں ہاتھ سے مصافحہ نہیں کیا جاتا تھا اور اس پر ہر گز عمل درآمد نہیں تھا۔ کیونکہ اس زمانہ میں اگر عام طور پر تمام لوگ دوہی ہاتھ سے مصافحہ کرتے ہوتے تو اس تقدیر پر ابو اسماعیل کا حماد بن زید کے دونوں ہاتھ سے مصافحہ کرنے کی خبردینا اور کس کو کہ یحییٰ وغیرہ جیسے لوگوں کو محض بے فائدہ ٹھہراتا ہے اور لفظ’’کلتا‘‘ کا زیادہ کرنا بھی بالکل لغو اور بے سود ہوتا ہے۔ پس صاف معلوم ہوا کہ اس زمانہ میں ایک ہی ہاتھ سے مصافحہ کا رواج تھا اور اسی