کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 192
اور انھیں روایات صحیحہ صریحہ کے مقابلہ میں مولانا شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے والد بزرگوار مولانا شاہ عبد الرحیم رحمۃ اللہ علیہ صاحب کے خواب کی بھی حقیقت نہیں ہے۔ کیونکہ خاتم المرسلین سید ولدآدم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صحیحہ صریحہ کے مقابلہ میں کسی شخص کا خواب یا کشف ہر گز قابلِ اعتبار ولائقِ التفات نہیں ہو سکتا گو وہ کتنا ہی بڑا علامہ ہو۔ اور اسی طرف اشارہ کیا ہے مولانا شاہ عبد العزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے القول الجمیل کے حاشیہ میں ۔ چنانچہ اپنے دادا شاہ عبد الرحیم رحمۃ اللہ علیہ صاحب کے خواب کے تحت میں فرماتے ہیں کہ بعض اکابر مریدسے فرماتے ہیں کہ اپنا داہنا ہاتھ پھیلا ئے ۔ پھر بیعت لینے والا اس پر اپنا داہنا ہاتھ رکھتا ہے۔ اسی طرح عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ نے بنی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ۔ انتہٰی دیکھئے شفاء العیل ترجمہ ازاقول الجمیل (ص۲۵ ) نظامی مصنفہ مولانا خرم علی صاحب مرحوم ۔ تنبیہ مستدل مذکور نے مولانا شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے والد بزرگوار کے خوابِ مذکور کے حجت اور قابلِ عمل بنانے کے لیے ایک عجیب تقریر فرمائی جو سننے کے قابل ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ کوئی غیر مقلد یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ شاہ ولی اللہ صاحب اور شاہ عبد الرحیم صاحب کا محض خواب وخیال ہے کیونکہ بخاری اور مسلم میں یہ حدیث موجود ہے کہ حضرت حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا بیشک اس نے مجھی کو دیکھا کیونکی شیطان میری شکل میں نہیں آسکتا اورر مسلم شریف میں ہے کہ صالح مرد کا خواب مرد کا خواب نبوت کے چھیالیس اجزاء سے ایک جز ہے۔ میں کہتا ہوں کہ مولانا شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے والد ماجد کا خواب مذکوران احادیث صحیحہ صریحہ مرفوعہ کے مخالف ہے جو پہلے باب میں مذکور ہیں لہٰذا وہ قابلِ عمل ہر گز نہیں ہو سکتا اور اگر مستدل صاحب نہ مانیں اور خواہ مخواہ اپنی تقریر سے خواب مذکور کو باوجود مخالفت احادیث کے بھی قابلِ عمل اور حجت ٹھہرائیں تو یاد رکھیں کہ ان کو امام محمد بن نصر کے ایک خواب سے(جس کو انھوں نے مسجد نبوی میں دیکھا تھا) اپنے مذہب حنفی کو خیر باد کہنا پڑے گا۔