کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 190
پڑنے کی وجہ سے یہ ہے کہ ان کو نحو کے ایک ایسے موٹے قاعدہ سے ذہول ہو گیا ہے ۔ جو ہدایۃ النحووغیرہ میں بھی موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ جب تثنیہ کو تثنیہ کی طرف مضاف کرنا چاہتے ہیں تو پہلے تثنیہ کو لفظ جمع سے تعبیر کرتے ہیں۔ قال فی ھدایۃ النحو واعلم انہ اذا ارید اضافۃ مثنٰی الی المثنٰی یعبر عن الاول بلفظ الجمع کقولہ تعالیٰ صغت قلوبکما وفاقطعواایدیھما انتھٰی۔ چوتھی دلیل دونوں ہاتھ سے مصافحہ کے قائلین سے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ محدثین کی تصریح سے ثابت ہے کہ یوقت بیعت رجال حضرت صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ہاتھ سے مصافحہ کرتے تھے چنانچہ ارشاد الساری میں ہے۔ قد بایعتک کلا ما ای بالکلام لا بالیدکما کان یبایع الرجال بالمصافحہ بالیدین ۔(ص۳۰۳ج۷) اور عمدۃ القاری میں ہے۔ قد بایعتک کلا ما وھو منصوب بنز ع الخافض وھو من قول عائشہؓ والنقد یرکان یبایح بالکلام ولا یبایع بالید کا لمبایعۃ مع الرجال بالمصافحہ بالیدین ۔(ص۲۰۸ج۹) اور اس کی تائید مولانا شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی حدیثِ رویا سے بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ درثمین میں بضمن حدیث طو لانی یہ مذکور ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں دست مبارک کو میری طرف پھیلایا اور بیعت کے لیے اشارہ کیا تب میں آگے پڑھا ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑکر مصافحہ کیا۔‘‘ اور قولِ جمیل میں لکھتے ہیں۔(ص۲۱) ’’کہ میں نے اپنے والد سے سنا وہ فرماتے تھے۔ کہ میں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم