کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 183
الحدیث۔(ص۱۵۳ج۲) پس ظاہر آنست کہ مصافحہ متوارثہ کو بوقت تلاقی مسنون الست نبورہ بلکہ طرقہ تعلیمیہ بودہ کہ اکابر وقب اہتمام تعلیم چیز ے از ہر دو دست یایک دست دست اصاغر گرفتہ تعلیم مے سازند۔‘‘ یعنی صحیح بخاری میں جو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تشہد سکھایا ۔ اس حالت میں کہ میری ہتھیلی آپ کی دونوں ہتھیلیوں میں تھی۔ سو ظاہر یہ ہے کہ یہ مصافحہ متوارثہ جو بوقت ملاقات مسنون ہے۔ نہیں تھا بلکہ طریقہ تعلیمیہ تھا کہ اکابر کسی چیز کے اہتمام تعلیم کے وقت دونوں ہاتھ سے یا ایک ہاتھ سے اصاغر کا ہاتھ پکڑ کر تعلیم کر تے ہیں اور مولوی صاحب موصوف کے علاوہ اجلہ فقہائے حنفیہ نے بھی اس امر کی تصریح کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے دونوں کفوں میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے کف کو پکرنا مزیداہتمام دتا کید تعلیم کے لیے تھا اور ان لوگوں میں سے کسی نے یہ نہیں لکھا ہے کہ یہ علی سبیل المصافحہ تھا۔ ہدایہ میں ہے۔ والاخذبھذا (ای بتشھد ابن مسعود) اولی من الاخذ بتشھد ابن عباس لان فیہ الامر واقلہ الاستحباب والالف والام وھما للا ستغراق وزیادۃ الواووھی لتجدید الکلام کما فی القسم وتاکید التعلیم انتھی (ص۱۰۲ج۱) علامہ ابن الہمام فتح الباری میں لکھتے ہیں۔ قولہ دتالید التعلیم یعنی بہ اخذہ بیدہ لذیادۃ التوکید لیس فی تشھد ابن عباس انتھٰی( ص۱۲۶ج۱) حافظ زیلعی رحمۃ اللہ علیہ تخریج ہدایہ میں لکھتے ہیں۔ ومنھا (ای من ترجیح تشھد ابن مسعود علی تشھد ابن عباس) انہ قال فیہ علمنی التشھد وکفی بین کفیہ ولم یقل