کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 169
تنبیہ دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کے قائلین اس قسم کی احادیث کا یہ جواب دیتے ہیں کہ لفظ’’ید‘‘ اسم جنس ہے۔ جس کا اطلاق قلیل اور کثیر پر ہوا ہے ۔ پس اس قسم کی حدیثیں جن میں لفظ’’ ید‘‘ بصیغہ واحد واقع ہوا ہے۔ ایک ہاتھ سے مصافحہ کے مسنون ہونے پر نص نہیں ہیں۔ اور بعضض اشکاص نے جواب کی تقریر ان لفظوں میں کی ہے۔ کہ مستدل (اہلِ حدیث) نے دو دعوے کئے ہیں ایک یہ کہ مصافحہ ایک ہی ہاتھ سے مسنون ہے دوسرا یہ کہ دونوں ہاتھوں سے مسنون نہیں ،مگر دلیل سے دونوں دعوے ہر گز ثابت نہیں ہوتے۔ پھر لکھتے ہیں کہ غاایۃ مانی الباب اس تقدیر پر دونوں نوع کا ثبوت ہو گا نہ ایک فرد مخصوص کا کیونکہ جنس کا اطلاق ایک فرد پر بھی من حیث الحقیقۃ ہے اور دو فرد پر بھی۔ میں کہتا ہوں کہ ان لوگوں کے اس جواب کے تین جواب ہیں۔ پہلا جواب جب یہ لوگ اس قسم کی احادیث میں لفظ’’ید‘‘ کو اسم جنس ٹھہراتے ہیں اور صاف صاف اعتراف کرتے ہیں کہ ان احادیث سے دونوں نوع مصافحہ کا (یعنی ایک ہاتھ کا بھی اور دونوں ہاتھ کا بھی )اثبوت ہوتا ہے تو ان لوگوں کایہ دعویٰ کہ ’’ایک ہاتھ سے مصافحہ غیر مسنون ہے۔ یا ناجائز ہے۔‘‘خود ان ہی کی زبان سے باطل ومردود ہو گیا۔ رہا ان لوگوں کا یہ قول کہ’’اس قسم کی حدیثیں ایک ہاتھ سے مصافحہ کے مسنون ہونے پر نص نہیں ہے۔‘‘ صحیح نہیں ہے جیسا کہ تم کو دوسرے اور تیسرے جواب سے معلوم ہو گا۔ دوسراجواب اس قسم کی احادیث میں لفظ ’’ید‘‘ سے جنس مراد لیناغیر مسلم ہے۔ کیونکہ ان احادیث میں لفظ ’’ید‘‘ معرف بہ لام ہے، یا مضاف پس ہم کہتے ہیں کہ الف ولام عہد خارجی کے لیے ہے اور ایسے ہی اضافت بھی، اور معہود داہنا ہاتھ سے جیسے کہ احادیثِ مذکوررہ بالا سے ثابت ہے۔ اور باوجود استقامتِ عہد کے الف ولام کو جنس کے ٹھہرانا صحیح