کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 147
قال: اولا: ان کتابوں کا نام لکھتے کہ کس نے لکھاہے ۔ اقول: ہم کو ان کتابوں کی فہرست لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ اچھا ں میں کیجئے معلوم ہو جائے گا۔ چھان میں کے بعد بھی اگر پتہ نہ لگا تو ہم بتا دینگے کہ فلاں نے لکھاہے۔ قال: ثانیا: بالفرض اگر کسی نے درہم کا ترجمہ روپیہ لکھا ہے تو غلطی کی ہے۔ اقول: غلطی کی وجہ ؟ اگر یہ خیال ہے کہ ہندی روپیہ عربی درہم سے بڑا ہوتا ہے تو واضح رہے کہ ہندی کو س بھی عربی میل سے بڑا ہوتا ہے۔ اس کی تصریح آپ نے خود کی ہے۔ قال: ثالثاً: اگر بالفرض درہم کا ترجمہ صحیح بھی ہو جب بھی آپ کی مثال میں اس احمق کا قول صحیح نہیں ہو سکتا۔ اقول: جب درہم کا ترجمہ فرض کیا تو ہماری مثال میں اس احمق کے قول کو صحیح نہ ماننا اور اپنے قول کو صحیح کہنا آپ کے عاقل اور کامل الفہم ہونے کی دلیل روشن ہے۔ احمق سے احمق آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ اگر آپ کا یہ قول (جب میل کی ہندی کوس ہے تو تین کوس لکھنا غلط کیونکر ہو گیا اور یہ امر آخر ہے کہ عرب کا کوس یہاں کے کوس سے بہت چھوٹا ہوتا ہے) صحیح ہے تو اس احمق کا یہ قول( جب درہم کی ہندی روپیہ ہے تو چاندی کا نصاب دو سو روپیہ لکھنا کیونکر غلط کہ عرب کا روپیہ یہاں کے روپیہ سے بہت چھوٹا ہوتاہے۔) بھی ضرور صحیح ہو گا۔ جناب ! یہ مثال لاجواب ہے۔ اور ممثل لہ کے ساتھ نہایت ہی چسپان ۔ اس مثال سے آپ کے قول کی قلعی خود اچھی طرح کھل گئی ہے۔ ہر شخص بخوبی سمجھ گیا ہے کہ آپ اسی احمق کے ہم قول اور ہم خیال ہیں۔ اب خیر اسی میں ہی کہ آپ کاموشی اختیار فرمائیں اور اس مثال کی نسبت ذرا بھی چوں وچرانہ کریں۔ قال: کیسے کیسے مہذبانہ کلمات زبانِ قلم سے نکل چکے اور نکل رہے ہیں۔ اقول: تنویر الابصار سے آفتاب کی طرح روشن ہے کہ لا مع الانوار کے آخر میں نور الابصار کے جواب نہ لکھنے کی نسبت جو کچھ آپ نے ارقام فرمایا ہے اس وقت آپ کے حواس ٹھکانے نہیں تھے۔ بذریعہ اشتہارات مطبوعہ کے اپنی غلطی کا اعتراف کرنا اسی بد حواسی کا