کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 126
ہوئی ہیں۔ اور بخاری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک قدری تھے ۔ اس وجہ سے ان کی روایت درجہ صحیح کو نہیں پہنچتی۔ اقول : اے جناب شوق! آپ اپنے المجلے کے(ص۱۳) میں ابو بکر رحمۃ اللہ علیہ نہشلی کی نسبت فرماتے ہیں کہ’’ متکلم فیہ ہیں ہوا کریں۔ جب مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے احتجاج کیا ہے۔ اور ابن معین رحمۃ اللہ علیہ وعجلی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی توثیق کی ہے۔ اور علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے ہو حسن الحدیث لکھ دیا ہے، توان کی روایت کس حالت میں درجہ حسن سے کم نہیں ہو سکتی۔‘‘ انتہی کلاملک پس ہم بھی عطاء ابن ابی میمونہ کی نسبت آپ کی بھی تقریر پیش کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ان پر ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے کلام کیا ہے تو کیا کریں۔ جب بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے احتجاج کیا ہے اور ابن معین ، رحمۃ اللہ علیہ نسائی رحمۃ اللہ علیہ اور ابو زرعہ رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی توثیق کی ہے تو ان کی روایت کسی طرح ضعیف میں ہو سکتی ۔ اور اے جناب شوق !آپ نے جلاء العین میں متعدد روایتوں کو صرف اس وجہ سے صحیح بتایا ہے کہ ان کے رجال بخاری یا مسلم یا دونوں سے ہیں۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اثر بوجہ عطاء رحمۃ اللہ علیہ بن ابی میمونہ کے رجال صحیحین سے ہیں کیوں ضعیف ہو گیا۔ کیا آپ اپنی تھوڑے دنوں کی لکھی ہو ئی باتوں کو بھول گئے یا ان باتوں سے رجوع کر گئے۔ قال: چنانچہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی اس روایت کی صحت میں تردد ہے۔ اقول: جب ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے اثر عر رضی اللہ عنہ کی تصحیح کی ہے اور بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اسناد حسن لکھا ہے تو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے تردد سے یہ اثر ضعیف نہیں ہو سکتا۔ قال: امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے جو یہ دعویٰ کیا ۔ ان لوگوں کا مقام بجرین کے قریٰ میں تھا۔ یہ دعویٰ بلا دلیل ہے۔ اقول : اگر وہ لوگ شہر میں تھے۔ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا یہ سوال تھا کہ یہاں جمعہ قائم کیا جائے یا نہیں۔ تو اس سے لازم آتا ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو مصر میں بھی جمعہ کے جائز ہونے میں تردد تھا واللازم باطل فان الجمعۃ تجوز فی المصر باتفاق جمیع اصحابہ فالملذوم مثلہ اور اگر فرض کیا جائے کہ وہ لوگ شہر ہی میں تھے تو کیا ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تو