کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 124
قدر تصریحات اکابر جو اثا کے شہر ہونے کے ثبوت میں کافی ہے۔ اقول: جب ابوداود کی نفس روایت سے جواثا کا قریہ ہونا ثابت ہے۔ تو ابو عبید بکری رحمۃ اللہ علیہ او ر ابو الحسن رحمۃ اللہ علیہ لخمی کا یہ قول کہ جواثا شہر سے قابل التفات نہیں۔ اور اگر ان کا قول صحیح بھی فرض کیا جائے تو بھی اس سے زمانہ نبوی میں جواثا کا شہر ہونا نہیں لازم آتا۔ ہم کہیں گے کہ زمانہ نبوی میں جواثا قریہ ہی تھا۔ جیسا کہ ابو داود کی روایت میں ہے۔ پھر بعد میں شہر ہو گیا۔فتح الباری میں ہے۔ وحکی ابن التین عن ابی الحسن اللخمی انھا مدینۃ وما ثبت فی نفس الحدیث من کو نھا قریۃ اصح مع احتمال ان تکون فی الاول قریۃ ثم صارت مدینۃ انتھٰی (فتح الباری:ص۴۸۶) اور جن لوگوں نے یہ لکھا ہے جو اثا قلعہ کا نام ہے ۔ ان کے قول میں اور جواثا کے قریہ ہونے میں کچھ منافات نہیں ہے۔ کیونکہ قلعہ گاؤں میں بھی ہوتا ہے۔ فتح الباری میں ہے۔ وحکی الجوھری والزمخشری وابن الا ثیران جواثا اسم حصن بالبحرین وھذا لا ینا فی کونھا قریۃ انتھٰی۔ یہیں سے ظاہر ہو گیا کہ آپ کا یہ قول کہ ظاہر ہے ۔ کہ قلعہ شہر میں ہوتا ہے۔ نہ گاؤں میں،محض غلط اور مہمل ہے۔ اور آپ کے اس قول کو کہ حدیث میں جواثا پر قریہ کا اطلاق باعتبار معنی لغوی ہے خود لفظ قریۃ من قری البحرین مبطل ہے۔ فتفکر وتأمل یظھرلک وجہ الابطال قال: (۷)عن عطا ء بن ابی میمونۃ عن ابی رافع ان ابا ھریرۃ کتب الی عمر یسئلہ عن الجمعۃ وھو بالبحرین فکتب الیھم ان جمعوا احیثما کنتم اخرجہ ابن خزیمۃ وابن شیبۃ والبیھقی وقال ھذا الا ثرا سنادہ حسن اس کا جواب یہ ہے کہ علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح بخاری میں لکھا ہے۔