کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 117
باب میں گذر چکے ہیں اور جناب شوق نے جواثر مذکور کے سواسات دلیلیں اورلکھی ہیں ان میں سے ایک بھی بجز ضرر کے حضرت شوق کو کچھ مفید نہیں۔ دیکھو پہلا باب جب اثر علی رضی الله عنہ کے سوا مقلدین جناب امام رحمۃ اللہ علیہ کے پاس کچھ اور پونچی ہی نہیں ہے تو بھلا ان غریبوں سے اس زبردست دلیل کا کیا جواب ہو سکتا ہے۔ اب شوق نے جو اس دلیل کے جواب میں خامہ فرسائی کی ہے اس کی حقیقت ظاہر کی جاتی ہے۔ قال : یہ آیت مدنی ہے اور جمعہ مکہ ہی میں فرض ہو چکا تھا۔ اقول: جناب آپ کا یہ دعویٰ بلا دلیل ہے اور اس دعویٰ پر آپ نے جتنی دلیلیں بیان کی ہیں سب کی دھواں دھار تر دید وتغلیط پہلے باب میں گذر چکی ہے۔ غور سے ملاحظہ فرمائے۔ قال: اس آیہ کریمہ میں مراد مومنین سے وہی لوگ ہیں جو مکلف با قامت جمعہ ہو چکے تھے۔ اقول: ھذابناء الفاسد علی الفاسد فتامل وثبت العرش فانقش قال: یا یوں سمجھو کہ جس طرح اس آیت سے عورت وغیرہالی تخصیص کی گئی ہے۔ اسی طرح اخبار مرفوعہ وآثار صحابہ سے غیر اہلِ مصر خاص ہیں اور جو عام مخصوص منہ البعض ہوتا ہے۔ حنفیہ کے اصول کے موافق بھی خبر آحاد سے اس کی تخصیص جائز ہے۔ اقول : ہم نہیں تسلیم کرتے کہ عند الحنفیہ آیہ جمعہ سے عورت وغیرہا مخصوص ہیں بنا براصول جناب امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ عورت وغیرہا کی تخصیص کے لیے بھی خبر مشہور کی ضرورت ہے۔ آپ پہلے ان احادیث کو جن میں عورت وغیرہ کا استثناء آیا ہے۔ مشہور ہونا ثابت کرلیں تب عورت وغیرہا کی تخصیص کا نام لیں ۔ورنہ آپ لوگ آیہ جمعہ سے عورت وغیرہا کی بھی تخصیص نہیں کر سکتے۔ ان احادیث کا مشہور ہونا اور ان سے عورت وغیرہا کا آیہ جمعہ سے عند الحنفیہ مخصوص ہونا تسلیم کرلیں تو بھی اس آیت سے اہلِ قریٰ کی تخصیص کسی طرح نہیں ہو سکتی کیونکہ اہلِ قریٰ کے غیر مکلف بالجمعہ ہونے کے بارے میں بجز اثر علی رضی الله عنہ کے کوئی خبر واحدثابت نہیں ہوئی ہے اور عام مخصوص منہ البعض کی تخصیص عند الحنفیہ اخبار آحاد سے جائز ہے نا آثار صحابہ رضی الله عنہم سے۔ قال: (۲)دار قطنی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے روایت کی ہے ۔عن ام عبد اللہ الدوسیۃ مرفوعا الجمعۃ واجبۃ علی کل قریۃ فیھاامام۔ الخ