کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 114
ثالثا: جب یہ دونوں تعریفیں نامعتبر اور غیر مفتی بہ ہیں تو اس تاویل سے کہ مراد یہ ہے کہ ان امور پر قدرت رکھتا ہو فائدہ کیا؟ قال : جامع الرموز وغیرہ سے ثابت ہے کہ والی عام ہے کہ مسلمان ہو یا کافر۔ اقول: ان دونوں تعریفوں میں جو الفاظ واقع ہوئے ہیں ان سے یہ تعمیم نہیں ثابت ہوتی اور شامی میں ہے۔ قال الشیخ اسمٰعیل ثم المراد من الا میر من یحراس الناس ویمنع المفسدین ویقوی احکام الشرع انتھی اس عبارت سے والی کا مسلمان ہی ہونا ثابت ہے۔ کیونکہ تقویۃ احکام شرع مسلمان ہی والی کا کام ہے۔ پس جب تک کسی دلیل سے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ وابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ سے تعمیم ثابت نہ ہو لے ان دونوں تعریفوں میں والی سے عام مراد لینا جائز نہیں ہے۔ علاوہ بریں جب یہ دونوں تعریفیں مفتی بہ نہیں ہیں تو اسس تعمیم سے کیا حاصل ہونا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب فقہاء نے دیکھا کہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کی تعریف کی بنا پر بہتیرے بڑے بڑے شہروں سے جمعہ رخصت ہوا جاتا ہے۔ اور بے شمار جامع مسجدوں میں جمعہ کے روز سناتا ہوا چاہتا ہے۔ تب اماین موصوفین کی تعریفوں میں ترمیمیں اور تاویلیں کی گئیں۔ کسی نے کہاوالی عام ہے مسلمان ہو یا کافر۔کسی نے کہا تنفیذ احکام وغیرہ سے مراد یہ ہے کہ ان امور پر قدرت رکھتا ہو۔ کسی نے کہا کہ احکام سے مراد فقط بعض احکام ہیں۔ اور اکثر فقہاء اور جمہور متاخرین نے جب دیکھا کہ ان ترمیمات کے بعد بھی بہتیرے شہروں کی جامع مسجد یں سنسان ہی رہنا چاہتی ہیں۔ تب ان دونوں تعریفوں سے صاف اعراض واغماض کر کے ایک دوسری تعریف پر فتویٰ دیا۔ مگر اے ناظرین! یہ سب چہ مے گونیاں فضوں اور بیکار ہیں۔ یہاں ضرورت ہے مصر کی اس تعریف کی جو سنت یا لغت سے ثابت ہو۔ قال: اور تنویر الابصار میں لکھا ہے ھو مالا یسع اکبر مساجدہ اھلہ المکلفین یعنی وہ مقام جہاں کے مسلمان مرد عاقل بالغ مکلف بالجمعہ اس قدر ہوں کہ وہاں کی مسجدوں