کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 113
ان کے غیر صحیح ہونے کے ثبوت میں اور دلائل بیان کر نے کی کچھ ضرورت باقی نہیں رہی۔
قال: ان دونوں تعریفوں میں تنفید احکام واقامت حدود وانصاف ظالم ومظلوم سے مراد یہ ہے کہ ان امور پر قدرت رکھتا ہو گو بالفعل موجود نہ ہو۔
اقول: تو پھر مولانا عبد العلیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے ان دونوں تعریفوں کی تردید کیوں کی۔ یزید اگر بالفعل اقامت حدود وا نتصاف الظالم من المظلوم نہیں کرتا تھا۔ تو کیا اس میں اس کی قدرت بھی نہ تھی۔ اور اکثر مشائخ رحمۃ اللہ علیہ نے جو اہلِ زمان اور ولاۃ کے فساد کو دیکھ کر ان دونوں تعریفوں پر فتویٰ نہیں دیا، بلکہ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کی اس دوسری تعریف پر فتویٰ دیا۔ جس کو بلخی رحمۃ اللہ علیہ نے اختیار کیا ہے سو اس کے کیا معنی؟ کیا اہلِ زمان او ر ولاۃ کے فساد سے ولاۃ و امراء میں اقامتِ حدود وانتصاف ظالم ومظلوم کی قدرت بھی باقی نہیں رہتی۔ اور فان شرط اقامۃ الحدود وانتصاف الظالم من المظلوم ینتقی وجوب الجمعۃ کا مطلب کیا ہو گا۔اور ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے جو لکھا کہ لا ریب ان القاضی المنفذ للاحکام عزیز بل معدوم یعنی’’ قاضی منفذِ احکام نایاب ،بلکہ معدوم ہے‘‘ تو کیا ایسا قاضی بھی معدوم ہوتا ہے۔ جو تنفیذِ احکام پر قدرت رکھتا ہو اور بالفعل تنقیذ نہ کرتا ہو۔ اور جب تنفیذ احکام وانتصاف سے یہی مراد ہے کہ ان امور پر قدرت رکھتا ہو تو صدر رحمۃ اللہ علیہ الشریعہ کا یہ قول کہ لظھور التوافی فی احکام الشرع لا سیما فی اقامۃ الحدود فی الامصار مہمل وبے معنی ہوا جاتا ہے۔ تفکر۔
ثانیاً : امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تعریف میں لفظ وال ینصف المظلوم من الظالم اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کی تعریف میں لفظ امیر وقاض ینفذ الا حکام ویقیم الحدود واقع ہوا ہے۔ ان الفاظ کے معنی حقیقی یہی ہیں کہ ان امور کو بالفعل جاری کرتا ہے۔ پس اگر امام حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ وابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کی مراد یہ ہوتی کہ ان امور پر قدرت رکھتا ہوتو ضرور لفظ یقدر کا بڑھاتے یا کوئی ایسا قرینہ واضحہ بیان کرتے جس سے یہ مراد اچھی طرح ظاہر ہوتی۔ کیونکہ تعریفات میں الفاظ مجازیہ کا استعمال بدون قرینہ واضح ہر گز جائز نہیں ہے۔