کتاب: مقالات محدث مبارکپوری - صفحہ 112
المظلوم من الظالم ینتفی وجب الجمعۃ مع انھا من شعار الاسلام ونحن نقول قد وقع فی اقامۃ الحدود وانتصاف المظلوم من الظالم فی امارۃ بنی امیۃ بعد وفات معٰویۃ الا فی زمان عمر بن عبدالعزیز وفی امارۃ بعض العباسۃ ولم یترک الجمعۃ واحد من الصحابۃ والتابعین وتبعھم فعلم انھما لیسا بشرطین انتھٰی
یعنی’’ان دونوں تعریفوں کو یہ بات رد کرتی ہے کہ صحابہ رضی الله عنہم اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ یزید کے زمانہ میں نمازِ جمعہ ترک نہیں کیا۔ حالانکہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یزید بالاتفاق نہایت ظالم تھا اس واسطے کہ اس نے حرمت اہلِ بیت کی ہتک کی اور اسی پر برابر مصر رہا۔ اور صحابہ اخیار رضی اللہ عنہم کی خون ریزی کے درپے ہمیشہ رہا۔ پھر ظالم اور مظلوم کے درمیان انصاف کرنا تو بہت ہی بعید ہے اور ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ سے ایک تفسیر یہ بھی مروی ہے کہ مصر وہ موضع ہے کہ جس میں اس قدر لوگ مقیم ہوں کہ وہاں کی اکبر مساجد میں ان کی گنجائش نہ ہو سکے۔ ہدایہ میں ہے کہ بلخی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہی تعریف مختار ہے۔ اور اہلِ زمان اور ولاۃکے فساد کو دیکھ کر اسی تعریف پر اکثر مشائخ نے فتویٰ دیا ہے اس واسطے کہ اقامت حدود اور انتصاف الظالم من المظلوم کی شرط کرنے سے وجوبب جمعہ منتفی ہو جائے گا۔ حالانکہ جمعہ شعار اسلام سے ہے اور ہم کہتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی الله عنہ کے وفات کے بعد باستثنائے زمانہ عمر رضی الله عنہ بن عبد العزیز وبعض خلفائے عباسیہ کے امارت بنی امیہ میں اقامت حدود وانتصاف ظالم ومظلوم میںسستی واقع ہو گئی۔ مگر پھر بھی صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین رحمۃ اللہ علیہ وتبع تابعین رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے نمازِ جمعہ ترک نہیں کی۔
پس معلوم ہوا کہ اقامت حدود اور انتصاف الظالم من الظلوم صحتِ جمعہ کے واسطے شرط نہیں ہیں۔
دیکھومولانا نے ان دونوں تعریفوں کی تردید میں کیسی مدلل تقریر کی ہے۔ جب خود علمائِ حنفیہ نے ان دونوں تعریفوں کا غیر معتبر ہونا مدلل تقریروں سے ثابت کر دیا تو ہم کو