کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 90
قرآن عزیز نے اس موضوع کو مختلف عنوانات اور مختلف طرق سے بیان فرمایا ہے۔ قرآن کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی نگاہ میں یہ مسئلہ ایمان کے لیے ایک اساس اور بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ پیغمبر کو درمیان سے ہٹا دیا جائے تو قرآن اور اسلام دونوں یتیم اور مسکین ہو کر رہ جائیں گے۔
میں نے فیصل آباد کے اجلاس میں اس موضوع پر اختصار سے عرض کیا تھا۔ اہمیت کے لحاظ سے یہاں کسی قدر تفصیل سے عرض کرنا مناسب سمجھا گیا، لیکن یہ تفصیل بھی انتہائی اختصار پر مشتمل ہے، مزید کسی قدر تفصیل رسالہ ’’مقام حدیث‘‘[1]میں ملے گی، جو پہلے شائع ہو چکا ہے۔
حدیث کا کھلا انکار چودھویں صدی میں:
مولوی عبداللہ چکڑالوی پہلے شخص ہیں جنہوں نے علوم سنت کی کھلی مخالفت کی۔ انہیں رسولوں کی اطاعت کا ذکر کھٹکتا رہا۔ انہوں نے رسول کے معنی قرآن کر کے اس اطاعت سے مخلصی چاہی، لیکن قرآن اس اطاعت سے بھرا پڑا ہے۔ سورہ شعراء میں تقریباً دس مرتبہ یہ فقرہ دہرایا گیا ہے:
﴿ فَاتَّقُوا اللّٰه وَأَطِيعُونِ ﴾ (الشعراء: 108)
’’اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘
گویا یہ اطاعت اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کے ہم پایہ چیز ہے۔
آل عمران میں فرمایا:
﴿ وَجِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ فَاتَّقُوا اللّٰه وَأَطِيعُونِ ﴾ (آل عمران: 50)
’’اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘
قرآن عزیز میں مختلف مقامات پر قریب قریب چالیس جگہ رسول کی اطاعت کا ذکر مختلف انداز سے آیا ہے۔ ایک موٹی سمجھ کا آدمی سوچتا ہے کہ ہر جگہ اس کی تعبیر رسول ہی سے فرمائی گئی ہے، کہیں بھی اصلی لفظ سے تعبیر نہیں کیا گیا، حالانکہ کئی جگہ اپنے موقع پر قرآن، فرقان اور کتاب کا ذکر آیا ہے۔ پھر اس تعبیر سے ہر ہر جگہ گریز کی کوئی معقول وجہ ہونی چاہیے۔
حقیقت یہ ہے کہ رسول کے لفظ سے اُس داعی کو تعبیر کیا گیا ہے جو اس دعوت کو لے کر آیا
[1] یہ رسالہ اسی مجموعہ میں بعنوان ’’سنت قرآن کے آئینہ میں‘‘ شامل ہے۔ اسی رسالے کو ایک بار ’’مقامِ حدیث‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا تھا۔