کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 699
محسوس کر رہا تھا اور پورے مجمع پر یہ کیفیت طاری تھی۔ مولانا ثناء اللہ صاحب رحمہ کا یہ ارشاد ان کے متعلق بالکل حرف بحرف صحیح تھا؎ اثر لبھانے کا پیارے تیرے بیان میں ہے کسی کی آنکھ میں جادو، تیری زبان میں ہے اس کے بعد مولانا کئی دفعہ تشریف لاتے رہے، زیارت ہوتی رہی، لیکن بچپن کی وجہ سے استفادہ کی جرأت نہ ہو سکی۔ ﴿وَكَانَ أَمْرُ اللّٰه قَدَرًا مَّقْدُورًا پھر میں 17-1916ء میں دہلی آیا، وہاں بھی زیارت کا موقعہ ملتا رہا۔ عموماً مجلس میں خاموشی ہوتی۔ یہ مبارک مجلس گلہ اور قہقہہ دونوں سے خالی ہوتی۔ آخری زیارت علی گڑھ اہلحدیث کانفرنس کے اجلاس میں ہوئی۔ مدراس کانفرنس میں غالباً کسی نے یہ شعر پڑھا؎ کیا خوب ہوتا وہ بھی گر آج زندہ ہوتے عبدالعزیز نامی ’’حسن البیان‘‘ والے پوری مجلس اشک بار ہو گئی۔ حضرت مولانا ثناء اللہ صاحب مرحوم اکثر یہ شعر پڑھتے اور آنکھیں برسنے لگتیں۔ مرحوم کو مولانا رحیم آبادی رحمہ اللہ سے والہانہ محبت تھی اور وہ ان کی رفاقت پر ہمیشہ فخر فرماتے۔ آہ! یہ مقدس گروہ ﴿فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا﴾ (الأحزاب: 23) کے خدائی قانون کے مطابق اپنی وفاداریاں نباہ کر اللہ کے پیارے ہو گئے۔ اب یہ بوجھ ایسے کندھوں پر آ گیا ہے، جن کے دامن میں سیاہ کاریوں اور غلط نوازیوں کے سوائے کچھ بھی نہیں۔ ’’كبرني موت الكبراء‘‘ کا منظر سامنے ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے وہ اخلاص اور حسن عمل کی نعمت سے نوازے اور توفیق دے کہ عمر کی یہ آخری گھڑیاں ایمان اور اخلاص کے ساتھ ختم ہو جائیں۔ کوس رحلت بکوفت دست اجل اے دو چشمم وداع سربکنید