کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 698
انگریز کے مظالم کی وجہ سے انڈر گراؤنڈ ہو چکی تھی، اکابر دیوبند اس سے تعلق توڑ چکے تھے، اکابر پٹنہ اپنی زندگیاں اس راہ میں وقف کر چکے تھے اور لاکھوں روپیہ مرحوم کی وساطت سے تحریک کو ملتا تھا۔ مرحوم خود بڑے دولت مند اور بڑے زمیندار تھے۔ ان کا تعلق اچھے کھاتے پیتے خاندان سے تھا۔ واجبی ضروریات کے بعد پوری آمدن تحریک مجاہدین میں صرف فرماتے تھے۔ مرحوم کے یہ خیال تحریک عدم تعاون سے برسوں پہلے تھے۔
دوسرا طریقہ انگریزی مال کے بائیکاٹ کا تھا۔ خود موٹا گاڑھا کھدر گھر کا بنا ہوا پہنتے۔ سردیوں میں کشمیری شال استعمال فرماتے۔ قلم سے لکھتے۔ نب اور انگریزی قلم کا استعمال سخت ناپسند فرماتے۔ مولانا ثناء اللہ صاحب مرحوم تبلیغی امور میں ان کے شریک کار تھے۔ مولانا نے تبلیغ کے لیے آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کی تاسیس، مدرسہ سلفیہ آرہ (بہار) کی سرپرستی فرمائی، ساتھ ہی انگریز کے خلاف جہاد کا محاذ بھی برابر کھولے رکھا۔
مولانا مرحوم کے مزاج میں عجیب تنوع تھا، ایک طرف وہ ان حضرات کے ساتھ اہلحدیث کانفرنس کی سٹیج پر کام کرتے، دوسری طرف مولانا فضل الٰہی وزیر آبادی رحمہ اللہ صوفی ولی محمد مرحوم فتوحی والد اکبر شاہ آف سخانہ، مولوی الٰہی بخش بمبانوالہ، قاضی عبدالرحیم صاحب، قاضی عبیداللہ، قاضی عبدالرؤف (قاضی کوٹ) اور مولانا عبدالقادر صاحب قصوری کے ساتھ جماعت مجاہدین کا کام کرتے تھے، اور یہ کام اس رازداری اور خوبصورتی سے ہوتا تھا کہ انگریز کی عقابی نگاہیں برسوں اس کا سراغ نہ لگا سکیں۔ معلوم نہیں یہ اطلاع کہاں تک درست ہے کہ مرحوم کی گرفتاری کے احکام اس دن پہنچے، جب مرحوم اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو کر جنت کے دروازے پر پہنچ کر داخلہ کی اجازت کے لیے دستک دے رہے تھے اور ﴿طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ﴾ (الزمر: 73) کی آواز کے منتظر تھے۔ پولیس جنازہ دیکھ کر واپس آ گئی، ۔اللّٰه م اغفرله وارحمه و أدخله الجنة، آمين۔
میں نے مرحوم کو پہلی دفعہ وزیر آباد میں دیکھا۔ جمعہ کے دن مولانا فضل الٰہی صاحب رحمہ اللہ کے ہاں کھانا تناول فرما کر مسجد اہلحدیث میں آئے۔ مرحوم حضرت الاستاذ الامام مولانا الشیخ حافظ عبدالمنان صاحب نے ممبر خالی فرما دیا۔ میری عمر غالباً اس وقت دس گیارہ سال ہو گی۔ وعظ میں عجیب رقت تھی۔ غالباً وعظ اخلاص فی العمل کے موضوع پر تھا۔ میں صغر سنی کے باوجود انتہائی رقت