کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 697
مقلد اور حشوی کہا جاتا، تاہم وہ پھر بھی علم و بصیرت کا دور تھا۔ علماءِ حق کی اس وقت کثرت تھی۔ ان خرافات کے باوجود بھی لوگ اہل حق کی قدر کرتے تھے۔
آج کی درایت:
لیکن سرسید و علامہ شبلی مرحوم کے ازدواج سے جو درایت پیدا ہوئی، یہ نہ تو کسی علمی ضرورت کا تقاضا ہے، نہ یہ اہل علم کا دور ہے۔ ہوا و ہوس کی ان طغیانیوں میں اندھے کے ہاتھ میں لاٹھی دے دی گئی ہے، جسے بلا تامل گھمایا جا رہا ہے۔
كبهيمة عمياء قاد زمامها
أعمي علي عوج الطريق الحائر
حضرت مولانا عبدالعزیز رحمہ اللہ:
حضرت علامہ شبلی نعمانی اور مولانا عبدالعزیز صاحب رحیم آبادی کے حالات میں ایک گونہ مناسبت معلوم ہوتی ہے۔ شبلی مرحوم نے ’’سيرة النعمان‘‘ کے علاوہ شاید ایک آدھ رسالہ فرعی اختلافات پر لکھا ہو، اس کے بعد انہوں نے قلم کا رخ اس طرف سے بالکل پھیر دیا۔ باقی عمر علمی اور تعلیمی خدمات میں صرف فرمائی۔ ندوۃ العلماء کی تاسیس فرمائی، جس میں فقہی تنگ نظری اور فرعی مسائل پر عصبیت نما مباحث بالکل نہیں تھے۔ ادب اور تاریخ کی خدمت اس درس گاہ کا اہم کردار تھا اور تصنیف و تالیف کے سلسلہ میں بھی بقیہ عمر میں ان کی توجہ علم کلام اور تاریخ کی طرف ہو گئی۔ خاص طور پر سیرت النبی ان کا دل پسند موضوع تھا، جس کی تکمیل ان کے وفادار اور محقق تلمیذ حضرت مولانا سید سلیمان صاحب ندوی نے فرمائی۔ رحمهما اللّٰه رحمة واسعة وجعل الجنة مثواهم
یہی حال حضرت مولانا عبدالعزیز صاحب رحیم آبادی – قدس اللّٰه روحه – کا تھا۔ ابتداء عمر میں زیر طباعت کتاب ’’حسن البیان‘‘ لکھی۔ ’’هداية المعتدي‘‘ اور ایک آدھ رسالہ شاید شیعہ کے متعلق لکھا اور رہوار قلم بالکل رک گیا۔ مولانا کے حقیقت پسند مزاج نے محسوس فرمایا کہ ان مذہبی، فقہی اور فرقہ وارانہ منازعات کی اصل علت ہندوستان میں انگریز کی بالادستی ہے۔ جب تک یہ دیو ملک میں کار فرما ہے، ملک میں امن ممکن نہیں، اس ضمن میں مولانا کے سامنے دو پروگرام تھے، سیاسی اور تبلیغی۔ سیاسی کے لیے دو طریق کار تھے، اول تحریک مجاہدین کی سرپرستی، جو اس وقت